چند برس پہلے میں نے ایک پلاٹ خریدا، دل میں کوئی خاص نیت نہیں تھی کہ تعمیر کے بعداس میں رہائش اختیار کرنی ہے یا فروخت کر کے نفع کماناہے۔دل میں یہ بھی تھا کہ تعمیر کر کے رہائش اختیار کریں گے اور یہ خیال بھی تھا کہ اچھا منافع مل گیا تو اسے فروخت کر دیں گے ؛ تاکہ رہائش کے لیے کوئی اور پلاٹ لے سکیں، تب سے اب تک دل میں یہ بے چینی سی ہے کہ آیا اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟
مذکورہ صورت میں چوں کہ پلاٹ خریدتے وقت اس کو فروخت کرنے کی حتمی نیت نہیں تھی، بلکہ اب تک نیت میں تردد رہا ہے ، اس لیے یہ پلاٹ تجارتی مال میں شامل نہیں ہو گا اور اس پر زکات فرض نہیں ہے۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 168):
"(ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة) لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة) لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202113
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن