میرا دوست جو مجھے پاکستانی روپے دیتا ہے مجھ سے بدلے میں ڈالر لیتا ہے ،اور ڈالر دن میں 10 ہزار ہوتا ہے، مجھے پاکستانی روپے ایک ہی دن میں دیتا ہے، اور جو ریٹ ہوتاہے ڈالر کا و ہ مجھے ڈالر 4 روپے مہنگادیتا ہے، کیونکہ میں اسے تھوڑا تھوڑا کر کےڈالر دیتا ہوں ،تو کیا یہ معاملہ سود میں آتا ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ کرنسی خواہ کسی بھی ملک کی ہو اسے خرید و فروخت کرتے ہوئے ایک ہی مجلس میں عاقدین کی جانب سے تبادلہ کرنا اور قبضہ کرنا شرعًا ضروری ہوتا ہے، اور کسی ایک جانب سے ادھار سود ( ربا نسیئہ ) کی وجہ سے حرام ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا روپے کے بدلے ڈالر تھوڑا تھوڑاکرکے دینا جائز نہیں ہے،یہ سود ی معاملہ ہے اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)."
(كتاب البيوع، باب الصرف، ج: 5، ص: 257 - 259، ط: سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية."
(کتاب الصرف، الباب الأول، ،ج:3، ص:217، ط: رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507102289
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن