بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکستانی روپوں کی سعودی ریال کے ساتھ ادھار بیع کا حکم


سوال

میرا ایک تعلق والا سعودیہ میں کام کرتا ہے ، میں اس سے ریال لینا چاہتا ہوں، اب وہ کہتا ہے کہ میرے بیٹے کو پاکستانی پیسے دے دیں اور سعودیہ پہنچ کر اُن پیسوں کے ریال مجھ سے وصول کر لیں اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیع الفلوس بالفلوس بالنسیئۃ تو نہیں ہوگی ؟

جواب

 مذکورہ طریقہ پر   خرید و فروخت کا معاملہ کرنانسیئہ (ادھار) ہونے کی وجہ سے ناجائزہے،تاہم جواز کی صورت یہ ہے کہ قرض کا معاملہ کر لیا جائے، یعنی  پاکستانی روپے بطورِ قرض دے دے،پھر ادائیگی بھی پاکستانی روپوں کی صورت میں واجب ہوگی، البتہ اگر عاقدین اس بات راضی ہوں کہ پاکستانی روپوں کے بدلے مقروض سعودی ریال اداکردے تو یہ بھی جائز ہے،ریال کے ساتھ قرض کی  ادائیگی  کی صورت میں ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔ 

فتاوى هندیہ میں ہے:

"المديون إذا قضى الدين أجود مما عليه لا يجبر رب الدين على القبول كما لو دفع إليه أنقص مما عليه، وإن قبل جاز كما لو أعطاه خلاف الجنس وهو الصحيح."

(کتاب البیوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع: 3 / 204، ط: رشیدیة)

 ’’الدرالمختار‘‘میں ہے:

"(وإلا) بأن لم یتجانسا ( شرط التقابض) لحرمۃ النسأ (فلو باع) النقدین (أحدہما بالآخر جزافًا أو بفضل وتقابضا فیہ) أی فی المجلس (صح و) العوضان (لایتعینان)… (ویفسد) الصرف (بخیار الشرط والأجل) لإخلالہما بالقبض۔  وفی الشامیۃ (قولہ: لحرمۃ النسأ) بالفتح أی التأخیر فإنہ یحرم بإحدی علتی الربا: أی القدر أو الجنس… الخ."

    (باب الصرف،ج: 5،ص:258،ط:سعید) 

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الرهن، ‌‌فصل في مسائل متفرقة: 6/ 525، ط: سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں