بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 ذو الحجة 1446ھ 25 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

پاکستان میں رہتے ہوئے سعودی عرب کی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے اعلان پر روزہ اور عید کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے علاقے مہمند ایجنسی (پشاور) میں کئی سالوں سے یہ رواج چلا آ رہا  ہے کہ لوگ رمضان المبارک کے روزے اور عید سعودی عرب کے اعلان کے مطابق کرتے ہیں، مقامی علماء میں سے بعض اہلِ علم اس عمل کو جائز قرار دیتے ہیں اور بعض اسے ناجائز کہتے ہیں۔

جو علماء اس کے جواز کے قائل ہیں، وہ بھی مختلف فتاویٰ سے استدلال کرتے ہیں، مثلاً فتاویٰ فریدیہ جلد چہارم، صفحہ 58 اور صفحہ84  وغیرہ، نیز ان کے پاس اس موقف کے حق میں دیگر دلائل بھی موجود ہیں۔دوسری جانب، جو علماء اس عمل کو ناجائز کہتے ہیں، وہ بھی مختلف فتاویٰ سے استدلال کرتے ہیں، مثلاً احسن الفتاویٰ وغیرہ، تاہم فی الوقت ان کا مکمل حوالہ مجھے یاد نہیں۔

 میں خود  طالب علم ہوں، اور اکثر عوام اس بارے میں مجھ سے سوال کرتے ہیں، اس لئے گزارش ہے کہ اس مسئلہ میں جامعہ کا موقف واضح فرما دیا جائے، تاکہ آئندہ میں عوام کو جامعہ کی رائے کے مطابق جواب دے سکوں۔

جواب

عصرِ حاضر کے تمام مسلم ممالک میں چاند کی رؤیت کے لئے باقاعدہ رؤیتِ ہلال کمیٹیاں موجود ہیں، جو باقاعدہ چاند دیکھ کر رمضان اور عید وغیرہ کا اعلان کرتی ہیں، ہر مسلم ملک کی رؤیتِ ہلال کمیٹی قاضیِ شرعی کی حیثیت رکھتی ہے، اور شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو اُس ملک کی حدود اور ولایت میں رہنے والے جن لوگوں تک یہ اعلان یقینی اور معتبر ذرائع سے پہنچ جائے، ان پر شرعاً اس فیصلے کے مطابق عمل کرنا لازم ہے۔مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے علاوہ غیر مجاز، پرائیویٹ کمیٹیاں رؤیتِ ہلال کا فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہیں، اور ان کا فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابلِ عمل نہیں ہے؛ اس لیے کہ ان کو ولایتِ عامہ حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لئے حجت نہیں ہے۔

لہٰذا پاکستان کے باشندوں پر اپنے ملک کی مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے کی پاس داری کرنا لازم ہے، پاکستان میں رہتے ہوئے روزہ اور عید کے لیے سعودی عرب یا کسی دوسرے مسلم ملک کی رؤیتِ ہلال کا اعتبار کرنا درست نہیں، البتہ اگر کوئی شخص اپنی آنکھوں سے چاند دیکھ لے، تو اس پر روزہ رکھنا لازم ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

" هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر، لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر."

(كتاب الصوم، ج: 2، ص: 83، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الفتاوی النسفیة: سئل عن قضاء القاضي برؤیة هلال شهر رمضان بشهادة شاهدین عند الاشتباه في مصر، هل یجوز لأهل مصر آخر العمل بحکمهم؟ فقال:لا، ولایکون مصرآخر تبعاً لهذا المصر، إنما سکان هذا المصر وقراها یکون تبعاً له."

(کتاب الصوم، الفصل الثاني فیما یتعلق برؤیة الهلال، ج:2، ص:356، ط: إدارۃ القرآن)

نیل الاوطا ر میں ہے:

"وثانيها: أنه لا يلزم أهل بلد رؤية غيرهم إلا أن يثبت ذلك عند الإمام الأعظم فيلزم كلهم لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع، قاله ابن الماجشون."

(کتاب الصیام، باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم، ج:4، ص:230 ط: دارالحدیث، مصر)

مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ ”زبدۃ المقال فی رؤیۃ الہلال“ میں تحریر فرماتے ہیں:

"إذا ثبت الصوم أو الفطر عند حاکم تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء أو عند واحد أو جماعة من العلماء الثقات ولاّهم رئیس المملکة أمر رؤیة الهلال، وحکموا بالصوم أو الفطر  ونشروا حکمهم هذا في رادیو، یلزم علی من سمعها من المسلمین العمل به في حدود ولایتهم، وأما فیما وراء حدود ولایتهم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلک الولایة بشهادة شاهدین علی الرؤیة أو علی الشهادة أو علی حکم الحاکم أو جاء الخبر مستفیضاً، لأن حکم الحاکم نافذ في ولایته دون ما وراءها."

(زبدۃ المقال فی رؤیة الھلال بحواله خیر الفتاوی، ج:4، ص:118،ط: مکتبة امدادیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل رأى هلال رمضان وحده فشهد، ولم تقبل شهادته كان عليه أن يصوم، وإن أفطر في ذلك اليوم كان عليه القضاء دون الكفارة .... رجل رأى هلال الفطر وشهد، ولم تقبل شهادته كان عليه أن يصوم فإن أفطر ذلك اليوم كان عليه القضاء دون الكفارة كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصوم، الباب الثاني في رؤية الهلال، ج:1، ص: 197، ط:دار الفكر بيروت)

جواہر الفقہ میں ہے:

”اور  جس طرح  ایک شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ اس شہر اور اس کے مضافات کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح اگر کوئی قاضی یا مجسٹریٹ یا ہلال کمیٹی  پورے ضلع یا صوبہ یا پورے ملک  کے لیے ہو تو اس کا فیصلہ  اپنے اپنے حدود ولایت میں واجب العمل ہوگا۔“

(مسئلہ رؤیت ہلال، جلد 3، ص:484، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں