بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکستان میں کمپاس کے ذریعے سے قبلہ کیسے معلوم کیا جاسکتا ہے؟


سوال

 عرض ہے کہ مسجد کےلئے پلاٹ خریدا گیا ہےجس کی لمبائی 110 فٹ جبکہ چوڑائی 50 فٹ ہے۔اب قبلہ کا رخ معلوم کرنے کےلئے جو آلات موجود ہیں، اس کے مطابق قبلہ کی سمت باکل سیدھی معلوم ہوتی ہے،جبکہ آس پاس کی مساجد کا رخِ قبلہ کچھ ٹیڑھا ہے۔

قبلہ کا رخ معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہے،اور پاکستان میں مقام مغرب کے دائیں بائیں کس درجہ ڈگری تک قبلہ گاہ بنانے کی اجازت ہے؟

جواب

سمتِ قبلہ معلوم کرنے کا صحیح طریقہ جو سلف سے چلا آتا ہے وہ یہ ہے کہ جن  شہروں  میں قدیم مساجد   موجود ہوں ان کی  اتباع کی  جائے  اور ان کے سمتِ قبلہ کو مدار بنایاجائے۔اور جن جنگلات یا نو آبادیات وغیرہ میں مساجدِ قدیمہ موجود نہ ہوں وہاں شرعی طریقہ جو صحابہ اور تابعین کے عمل سے ثابت ہے یہ ہے کہ سورج چاند اور قطب ستارہ وغیرہ کے مشہور و معروف ذرائع سے اندازہ قائم کرکے سمتِ قبلہ متعین کر لیا جائے۔ اگر اس میں معمولی میلان و انحراف بھی رہے تو اس کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اور ایسی جگہوں میں آلاتِ رصدیہ اور حساباتِ ریاضیہ سے کام لینا بھی جائز ہے، بلکہ جس شخص کو یہ فن آتا ہو اس کے لیے ایسی جگہوں میں جہاں مساجدِ قدیمہ موجود نہ ہوں ضروری ہے کہ بجائے دوسری علامات و نشانات کے ان آلات و حسابات سے کام لے، کیوں کہ ان سے ظنِ غالب حاصل ہوتا ہے اور محض تخمینہ کے مقابلہ میں زیادہ مفید ظنِ غالب ہوتا ہے۔

نیزپاکستان اور تمام اہلِ مشرق کے لیے قبلہ سمتِ مغرب ہے، اور اسی طرح ہر ملک کا قبلہ بیت اللہ سے ان کی سمتِ وقوع کے اعتبار سے ہوگا، جیسا کہ اہلِ مدینہ کا قبلہ سمتِ جنوب میں ہے، لہذا جہاں جدید مسجد کی تعمیر ہووہاں مذکورہ بالا طریقے پر عمل کیا جائے ، اور متعلقہ فن پر جن لوگوں کو عبورحاصل ہوان سے رابطہ کرکے جدید آلات کے ذریعہ مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔(معارف القرآن 446/1،ط: معارف القرآن )

باقی کمپاس کے ذریعے سمت معلوم کرنے کاطریقہ اہلِ فن کے ہاں معروف ہے، ہر علاقے کے طول البلد  اورعرض البلد  کی طرح درجے بھی مقرر ہیں، ان کی مدد سے سمت متعین کی جاتی ہے۔  بوقتِ ضرورت ماہرینِ فن سے سمتِ قبلہ متعین کروالیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" قال القهستاني: ومنهم من بناه ‌على ‌بعض ‌العلوم ‌الحكمية إلا أن العلامة البخاري قال في الكشف إن أصحابنا لم يعتبروه. اهـ. وأفاد في النهر أن دلائل النجوم معتبرة عند قوم وعند آخرين ليست بمعتبرة قال: وعليه إطلاق عامة المتون. اهـ. أقول: لم أر في المتون ما يدل على عدم اعتبارها، ولنا تعلم ما نهتدي به على القبلة من النجوم. وقال تعالى".

‌‌[‌‌كتاب الصلاة،مطلب في ستر العورة،430/1،ط : دار الفكر]

وفیہ ایضا :

" وقال في شرح زاد الفقير: وفي بعض الكتب المعتمدة في استقبال القبلة إلى الجهة أقاويل كثيرة وأقربها إلى الصواب قولان: الأول أن ينظر في مغرب الصيف في أطول أيامه ومغرب الشتاء في أقصر أيامه فليدع الثلثين في الجانب الأيمن والثلث في الأيسر والقبلة عند ذلك، ولو لم يفعل هكذا وصلى فيما بين المغربين يجوز، وإذا وقع خارجا منها لا يجوز بالاتفاق اهـ ملخصا. وفي منية المصلي عن أمالي الفتاوى: ‌حد ‌القبلة ‌في بلادنا يعني سمرقند: ما بين المغربين مغرب الشتاء ومغرب الصيف، فإن صلى إلى جهة خرجت من المغربين فسدت صلاته اهـ وسيأتي في المتن في مفسدات الصلاة أنها تفسد بتحويل صدره عن القبلة بغير عذر، فعلم أن الانحراف اليسير لا يضر، وهو الذي يبقى معه الوجه أو شيء من جوانبه مسامتا لعين الكعبة أو لهوائها، بأن يخرج الخط من الوجه أو من بعض جوانبه ويمر على الكعبة أو هوائها مستقيما، ولا يلزم أن يكون الخط الخارج على استقامة خارجا من جبهة المصلي بل منها أو من جوانبها كما دل عليه قول الدرر من جبين المصلي، فإن الجبين طرف الجبهة وهما جبينان، وعلى ما قررناه يحمل ما في الفتح والبحر عن الفتاوى من أن الانحراف المفسد أن يجاوز المشارق إلى المغارب اهـ فهذا غاية ما ظهر لي في هذا المحل، والله تعالى أعلم".

‌‌[‌‌كتاب الصلاة،مطلب في ستر العورة،430/1،ط : دار الفكر]

جواھر الفقہ میں ہے:

"جس جگہ کا سمت قبلہ معلوم کرنا چاہیں ،وہاں کے طول البلد کو غیاث اللغات وغیرہ یا کسی ا ٹلس  سے معلوم کرکے 40 درجہ کو (جو طول البلد ہے مکہ مکرمہ کا) اس میں سے تفریق کردیں ،اور باقی 4 میں ضرب دے کر حاصل ضرب کو 60 پر تقسیم کرکے گھنٹے منٹ بنالیں ،یہ فرق وقت ہو گا مقامی نصف النہا ر اور نصف النہار مکہ مکرمہ میں ".

(سمت  قبلہ معلوم کرنے کا طریقہ،350/2،ط:مکبہ دار العلوم)

فقط اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505101950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں