کیا Amazon FBA (fullfillment by amazon) اسلام میں جائز ہے؟
Amazon FBA کا طریقہ کار: اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثلاً میں پاکستان میں ہوں اور amazon پر اپنی دکان کھولتا ہوں،پھر میں چائنا سے کوئی چیز online خرید لیتا ہوں، اور اس کو amazon کے گودام(warehouse) جو کہ امریکہ میں ہوتا ہے یا کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہے، اس کو منتقل کر دیتا ہوں، اب جب گاہک(customer) مجھ سے کوئی چیز خریدتا ہے تو میں اس سے پیسے اور order لے لیتا ہوں اور amazon والے میری وہ چیز (جو ان کی گودام میں پڑی تھی) وہ پیک کر کے میرے گاہگ کو بھیج دیتے ہیں اور amazon اس کام کو کرنے کا مجھ سے اپنا معاوضہ(fees) لیتی ہے، لیکن یاد رہے یہ سارا میں پاکستان بیٹھ کر کررہا ہوں۔
واضح رہے کہ خرید و فروخت کے صحیح ہونے کے لیے جملہ شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ کوئی چیز فروخت کرتے وقت بیچنے والے یا اس کے وکیل کا قبضہ اس چیز پر ہو،بیچنے والے یااس کے وکیل کے قبضہ کے بعد چیز کا بیچنا جائز ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل ایمازون کے قبضہ میں آنے کے بعد سامان آگے فروخت کرتا ہے تو سائل کا ایسا کرنا درست ہے، کیوں کہ ایمازون سائل کا اجیر ہے اور اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ سامان کو سنبھالے گا اور آگے گاہک کو پہنچائے گا ، ایمازون کا قبضہ شرعا سائل کا قبضہ ہی شمار ہوگا، لہذا سائل کے لیے پاکستان میں بیٹھ کر اس سامان کو بیچنا شرعا جائز ہے،ایمازون کے قبضہ سے پہلے آگے فروخت کرنا سائل کے لیے شرعا جائز نہیں ہوگا۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ اگر چائنا سے ایمزون کے گودام تک منتقلی کے لیے سائل جہاز بھی خود کرواتا ہے تو پھر سامان جہاز میں چڑھنے کے بعد سائل کے قبضہ میں ہی شمار ہوگا، کیوں کہ جہاز کی کمپنی سائل کی اجیر ہے اور اس کا قبضہ شرعا سائل کا قبضہ ہے، لہذا سائل کے لیے ایمزون کے گودام تک پہنچنے کا انتظار بھی اب ضروری نہیں ہے بلکہ جہاز میں چڑھنے کے بعد آگے فروخت کرسکتا ہے البتہ اگر مال جہاز میں بھی نہیں چڑھا تو پھر اس کو آگے فروخت کرنا سائل کے لیے جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومنها القبض في بيع المشترى المنقول"
(کتاب البیوع باب اول ج نمبر ۳ ص نمبر ۳ دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو اشترى دهنا ودفع القارورة إلى الدهان وقال للدهان ابعث القارورة إلى منزلي فبعث فانكسرت في الطريق قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل - رحمه الله تعالى - إن قال للدهان ابعث على يد غلامي ففعل فانكسرت القارورة في الطريق فإنها تهلك على المشتري ولو قال ابعث على يد غلامك فبعثه فهلك في الطريق فالهلاك يكون على البائع لأن حضرة غلام المشتري تكون كحضرة المشتري وأما غلام البائع فهو بمنزلة البائع كذا في فتاوى قاضي خان"
(کتاب البیوع، باب رابع، فصل ثانی ج نمبر ۳ ص نمبر ۱۹، دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100253
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن