بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکستان میں شریعت اور خلافت کے نظام نافذ کرنے کا طریقہ


سوال

کیا پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی جدو جہد ہر مسلمان پر فرض ہے؟ اگر سب پر نہیں تو کن لوگوں پر فرض ہے؟ مختلف تحریکیں اس کو فرض کہتی ہیں اس بنیاد پر کہ اگر فرض کفایہ ادا کرنے کے لیے مناسب قوت فراہم نہ ہو تو دائرہ تکلیف بڑھتا چلا جاتا ہےاسی طرح کیا خلافت کے قیام کی جدو جہد بھی ہر مسلمان پر فرض ہے؟

جواب

صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں اسلامی شریعت کا نفاذ امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری اور مشترکہ فریضہ ہے،  یہ  فریضہ صرف پاکستان یا کسی مخصوص خطے کے ساتھ خاص نہیں ہے،  جس کے لیے اُمتِ  مسلمہ کی اجتماعیت اولین شرط ہے،  پھر اس اجتماعیت کے نتیجے میں امام وقت کا تقر وتعین دوسرے درجے میں فرض ہوگا،  جب کہ تیسرے مرحلے میں طاقتور خلافت کا وجود شرعًا ناگزیر ہے، جس کے لیے وسیع بنیادوں پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایسا اِحیاء لازم ہے جس کے نتیجے میں مسلم فرد سے لے کر مسلم خاندان تک اور مسلم  خاندان سے  لے کر مسلم معاشرے اور پھر مسلم دنیا تک اسلامی ماحول قائم ہوگا،  اس ماحول کو جب خلعت خلافت میسر آئے گی تو اسے دنیا میں پائیدار خلافت کہیں گے اور  یہ خلافت نفاذِ شریعت اور تعمیل شریعت کے مؤثر و مفید کردار کی حامل ہوگی۔

اس تدریجی تربیت سے ہٹ کر نفاذ شریعت کی جو کوششیں پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں ہورہی ہیں انہیں مؤثر یا مفید کہنے کے بجائے غیر مؤثر اور نتائج کے اعتبار سے مضر ہی دیکھا گیا ہے؛  اس  لیے اِحیاءِ خلافت کے اہم ترین جذبہ و کارنامے  کے برمحل ثابت ہونے کے لیے  فی زمانہ  اِحیاءِ دین کی ضرورت ہےاور اِحیاءِ دین کا آغاز معاشرتی  اکائیوں سے ہوتا ہے۔ 

مقدمہ ابن خلدونؒ میں ہے:

"والخلافة هي حمل الكافة على مقتضى النظر الشرعي في مصالحهم الأخروية والدنيوية الراجعة إليها، إذ أحوال الدنيا ترجع كلها عند الشارع إلى اعتبارها بمصالح الآخرة، فهي في الحقيقة خلافة عن صاحب الشرع في جراسة الدين وسياسة الدنيا به. فافهم ذلك واعتبره فيما نورده عليك، من بعد. والله الحكيم العليم."

(الفصل الخامس والعشرون في معنی الخلافة والإمامة: ص:150، ط: دار الکتب العلمیة)

إزالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء للدہلویؒ میں ہے: 

"ھی الریاسة العامة فی التصدی لإقامة الدین بإحیاء العلوم الدینیة وإقامة أرکان الإسلام والقیام بالجھاد وما یتعلق ب‬ه من ترتیب الجیوش والفرض للمقاتلة وإعطائھم من الفییٴ والقیام بالقضاء وإقامة الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنھی عن المنکر نیابة عن النبی صلی الله علیه وسلم."  

(في بیان خلافة العامة، في تعریف الخلافة العامة:ج:1 ص:85، ط: دار القلم) 

الاحکام السلطانیۃ للماوردی میں ہے:

"الإمامة: موضوعة لخلافة النبوة في حراسة الدين وسياسة الدنيا، وعقدها لمن يقوم بها في الأمة واجب بالإجماع وإن شذ عنهم الأصم.

هل الخلافة واجبة بالشرع أم بالعقل؟

واختلف في وجوبها هل وجبت بالعقل أو بالشرع؟ فقالت طائفة: وجبت بالعقل لما في طباع العقلاء من التسليم لزعيم يمنعهم من التظالم، ويفصل بينهم في التنازع والتخاصم، ولولا الولاة لكانوا فوضى مهملين، وهمجا مضاعين،وقالت طائفة أخرى: بل وجبت بالشرع دون العقل؛ لأن الإمام يقوم بأمور شرعية قد كان مجوزا في العقل أن لا يرد التعبد بها، فلم يكن العقل موجبا لها

فإذا ثبت وجوب الإمامة ففرضها على الكفاية كالجهاد وطلب العلم، فإذا قام بها من هو من أهلها سقط فرضها على الكفاية."

(الباب الاول فی عقد الامامة، ص:15، 16، 17، ط:دار الحديث)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"هذه الآية ‌أصل ‌في ‌نصب ‌إمام وخليفة يسمع له ويطاع، لتجتمع به الكلمة، وتنفذ به أحكام الخليفة. ولا خلاف في وجوب ذلك بين الأمة ولا بين الأئمة إلا ما روي عن الأصم «٢» حيث كان عن الشريعة أصم، ......ودليلنا قول الله تعالى:" إني جاعل في الأرض خليفة".

(تفسير القرطبي، سورة البقرة، 1/264، ط:دار الكتب المصرية)

اسلام کا سیاسی نظام میں ہے:

’’اسلامی حکومت قائم کرنا شریعت اسلامیہ میں کیا درجہ رکھتا ہے؟ اہل سنت والجماعت کا مسلک اس بارے میں یہ ہے کہ نصب خلیفہ یا بالفاظ دیگر اسلامی حکومت قائم کرنا سب مسلمانوں پر فرض علی الکفایہ ہے بشرطیکہ انہیں اس کی استطاعت حاصل ہو۔ اس واجب کی ادائیگی کے لئے استطاعت حاصل کرنا ضروری ہے .‘‘

(اسلام کا سیاسی نظام مؤلفہ مولانا اسحاق سندیلوی، باب سوم اسلام میں حکومت کا درجہ، ص:74، ط:مجلس الدعوۃ والتحقیق الاسلامی)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان."

(کتاب الآداب، باب الامر بالمعروف،3/1421، ط:المكتب الاسلامي بيروت)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال بعض علمائنا: ‌الأمر ‌الأول ‌للأمراء، والثاني للعلماء، والثالث لعامة المؤمنين."

(کتاب الآداب، باب الامر بالمعروف، 8/3208، ط:دار الفکر)

روح المعانی میں ہے:

"ووجه تخصيص عشيرته صلّى الله تعالى عليه وسلّم الأقربين بالذكر مع عموم رسالته عليه الصلاة والسلام دفع توهم المحاباة وأن الاهتمام بشأنهم أهم وأن البداءة ‌تكون ‌بمن ‌يلي ثم من بعده ."

(سورۃ الشعراء، 10/132، ط:دار الکتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں