بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فلسطین میں درپیش حالات کے تناظر میں پاکستان کے مسلمانوں کے لیے جہاد کا کیا حکم


سوال

آج اُمتِ مسلمہ کو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے درپیش حالات کے تناظر میں ہمارے لیے یعنی پاکستانیوں  کے لیے جہاد کا کیا حکم ہے؟  کیا ہم پر جہاد فرض ہوچکا ہے یا نہیں؟ جواب اس انداز سے دیا جائے کہ ہم جیسے کم فہموں کے لیے جہاد کا فقہی حکم واضح ہوجائے کہ ہمیں یہیں سے صرف دعائیں کرنی چاہییں یا عملًا بھی ہم پر کچھ کرنا لازم ہے؟

جواب

فلسطین یا اس جیسے وہ مظلوم اور کمزور اسلامی ممالک جو حملہ آور کافروں کے لیے تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں، جو حملہ آور کفار کے دفاع سے اکیلے عاجز ہیں، ایسے مسلمانوں کی دفاعی، جانی اور مالی مدد کرنا درجہ بدرجہ تمام مسلمانوں پر  اپنی اپنی استطاعت کے مطابق فرض ہے، شرعی لحاظ سے سب سے پہلے قریبی اسلامی ممالک  کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان مظلوموں کی حفاظت اور دفاع کے لیے میدان میں آئیں، اگر وہ دفاع کا فریضہ ادا کرنے سے عاجز آرہےہوں  یا وہ اپنا یہ فرض ادا کرنے میں کوتاہی کر رہے ہوں تو  پھر ان سے قریبی ممالک پر جہاد فرض ہوگا، پاکستان جغرافیائی لحاظ سے اگر اس ترتیب کے  مطابق  پہلے مرحلے میں شرعی ذمہ داری کا مسئول نہ بھی کہلاتا ہو، تو پھر بھی سفارتی سطح پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا پاکستان اور دیگر تمام اسلامی ممالک کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر سطح پر ہر انداز سے بیت المقدس کے تحفظ اور فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے کردار ادا کریں۔

الجوہر  النیرہ  میں  ہے:

’’و السير ها هنا هو الجهاد للعدو و هو ركن من أركان الإسلام و الأصل في وجوبه قوله تعالى: {كتب عليكم القتال وهو كره لكم} [البقرة: 216] أي فرض عليكم القتال و هو شاق عليكم، و قوله تعالى: {فاقتلوا المشركين حيث وجدتموهم} [التوبة: 5]، و قوله تعالى: {وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة} [الأنفال: 39] أي لايكون شرك {ويكون الدين كله للّٰه} [الأنفال: 39] قال -رحمه الله-: (الجهاد فرض على الكفاية إذا قام به فريق من الناس سقط عن الباقين) يعني إذا كان بذلك الفريق كفاية أما إذا لم يكن بهم كفاية فرض على الأقرب فالأقرب من العدو إلى أن تقع الكفاية قوله: (فإن لم يقم به أحد أثم جميع الناس بتركه)؛ لأنّ الوجوب على الكل إلا أن في اشتغال الكل به قطع مصالح المسلمين من بطلان الزراعة و منافع المعيشة.‘‘

(ص:257، ط:المطبعة الخيرية)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں