بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکی ناپاکی کے چند مسائل


سوال

1۔رات کو سوتے ہوئے ہاتھ پر ناپاکی لگے ،اور بندہ اسے کپڑوں سے پہنچ لے ،اس کے بعد اس کا ہاتھ متعدد چیزوں پرلگے جو اس کے بستر یا اس کے پاس پڑی ہوئی ہے اور ہاتھ پر ہلکا یا معمولی پسینہ کی وجہ سے تری ہو تو کیا وہ سب چیزیں ناپاک ہو جائے گی؟

2۔اسی طرح اگر ہاتھ پہلے سے چکنا ہو چہرے کی چکناہٹ کی وجہ سے، اور پھر اس پر ناپاکی لگے، اور ناپاک ہاتھ کپڑوں سے پوچھ لے یا پھر ناپاکی خود ہی سوک جائے، اور اس کے بعد ہاتھ متعدد چیزوں پہ لگے ،اور ان چیزوں پر تیل کا اثر ا جائے، تو کیا یہ چیزیں ناپاک ہو جائے گی؟

3۔ اگر ناپاک ہو گئی تو ان کو پاک کیسے کرے؟ اس میں بہت ساری متعدد چیزیں ہیں جیسے کہ بیڈ پر پڑی ہوئی کتابیں لیپ ٹاپ موبائل اور دیگر اشیاء جو چیزیں آسانی سے نہ دھل سکے۔

4۔اگر یہ سب چیزیں ناپاک ہو گئی تو جو اب تک عبادت کی کیا وہ عبادت قبول ہوگی؟اور کیا ان چیزوں کی وجہ سے اور دیگر چیزیں بھی ناپاک ہو جائے گی ؟اور اگر ہو جائے گی تو ان چیزوں کو کس طریقے سے پاک کرے؟ اس میں بہت زیادہ دشواری ہے پتہ نہیں کیا کیا ناپاک ہے ؟

جواب

1۔واضح رہے کہ اگر ہاتھ پر نجس (ناپاک) چیز لگ جائے ،اور وہ سوکھ جائے،یااس کو کپڑا وغیرہ سےسکھایا جائے،اس کے بعد اگر ہاتھ پر پسینہ یا تری آجائے،تواگر اسی معمولی پسینےآئے ہوئےہاتھ کو کسی چیز   پر رکھنے سے اس چیز پر نجاست کا اثر مثلاً بو وغیرہ  ظاہر ہو تو وہ اشیاءنجس ہوگی، ورنہ نجس نہیں ہوگی۔

2۔اگر ان اشیاءپر ناپاکی کا اثر ہو تو ناپاک ہو ں گے،اوراگر ناپاکی کے اثرات یعنی بووغیرہ نہ ہو تو پاک کہلائے گے۔ 

3۔واضح رہے کہ جن ناپاک  چیزیں کوپانی سے پاک کرنے میں ان کے خراب ہونے کا خطرہ ہو تو  ان کو پاک کرنے کے لیے  اس پر  پیٹرول یا کوئی مائع (لیکوئید) کیمیکل بہا دیں،  ایک مرتبہ بہانے کے بعد جب قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں تو دوبارہ بہادیں، یوں تین مرتبہ کرنے سے وہ ناپاک  چیزیں پاک ہوجائیں گی۔

4۔واضح رہے کہ شریعت  مطہرہ کی رو سے  جب تک کسی چیز کے پاک ناپاک ہونےکا یقین یا ظن غا لب نہ ہو  تو محض وہم اورگمان سے اس چیز ناپاک نہیں کہا جاسکتا،اگر اس بات کا یقین ہو یا غالب گمان ہو  کہ یہ چیز ناپاک ہے،اور اس پر ناپاکی کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہوتو اس چیز کو جیب میں رکھ نماز وغیرہ پڑھنے سے نماز ادا نہیں ہوگی،اور اگر  کسی چیز پر  ظاہری نجاست نہ ہو،اور اسی طرح غالب گمان بھی نہ ہو بلکہ صرف وسوسہ ہوتویہ محض وہم ہے کہ فلاں فلاں  چیز نجس ہوگئی ہے،اور پورا گھر ناپاک ہو چکا ہے،اور اس سے عبادت پرکوئی اثر نہیں پڑھے گا،لہذا وساوس اور اوہام سے بچنے کی کوشش کرے،وہم اور وسوسے کا سب سے کار گر اور مفید  علاج یہی ہے کہ اس کی طرف بالکل  توجہ نہ دی جائے،    وساوس سے بالکل  پریشان نہ ہونا چاہیے، اور  ان کی طرف دھیان ہی نہ دینا چاہیے، نیز ایسے وساوس سے حفاظت کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ولو شك إلخ) في التتارخانية: ‌من ‌شك ‌في ‌إنائه ‌أو ‌في ‌ثوبه أو بدن أصابته نجاسة أو لا فهو طاهر ما لم يستيقن، وكذا الآبار والحياض والجباب الموضوعة في الطرقات ويستقي منها الصغار والكبار والمسلمون والكفار؛ وكذا ما يتخذه أهل الشرك أو الجهلة من المسلمين كالسمن والخبز والأطعمة والثياب اهـ ملخصا."

 (كتاب الطهارة، فرض الغسل، ج: 1 ص: 151 ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"ولو لف في مبتل بنحو بول إن ظهر نداوته أو أثره تنجس وإلا لا."

 (كتاب الطهارة، باب الأنجاس، فروع في الاستبراء، ج:1 ص:347 ط: سعید)  

الأشباہ والنظائر میں ہے:

"‌شك ‌في ‌وجود ‌النجس فالأصل بقاء الطهارة؛ ولذا قال محمد رحمه الله: حوض تملأ منه الصغار، والعبيد بالأيدي الدنسة، والجرار الوسخة يجوز الوضوء منه ما لم يعلم به نجاسة."

(القاعدة الثالثة: اليقين لا يزول بالشك، الأصل بقاء ما كان على ما كان، ص: 49 ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"(ومما يتصل بذلك مسائل الشك) في الأصل من شك في بعض وضوئه وهو أول ما شك غسل الموضع الذي شك فيه فإن وقع ذلك كثيرا لم يلتفت إليه هذا إذا كان الشك في خلال الوضوء فإن كان بعد الفراغ من الوضوء لم يلتفت إلى ذلك ومن شك في الحدث فهو على وضوئه ولو كان محدثا فشك في الطهارة فهو على حدثه ولا يعمل بالتحري. كذا في الخلاصة."

(كتاب الطهارة، الباب الثاني في الغسل، الفصل الأول في فرائض الغسل، ج:1 ص:13 ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں