بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکی کے سولہ دن بعد خون کے براؤن نشانات کا آنا


سوال

مجھے بائیس اکتوبر بروز جمعہ کو مغرب کے وقت ایک براؤن نشان آیا ،اس کے بعد کوئی نشان نہیں آیا،ہفتے کے دن بھی کوئی نشان نہیں آیا اس لیے عشاء کی نماز بھی پڑھ لی یہ سمجھتے ہوئے کہ حیض ابھی شروع نہیں ہوا اور ساتھ ہی جمعہ کے دن کی مغرب کی  قضا  بھی پڑھ لی ،جب  مجھے لگا کہ حیض جمعہ کو شروع نہیں  ہوا تھا تو میں نے سوچا کہ میری نماز قضا ہوگئی تو اب میں اس کو ادا کر لوں ،چوبیس  اکتوبر  بروز اتوار فجر اور ظہر کی نماز ادا کی اور ساتھ ساتھ دو اور نمازوں کی  قضا بھی   پڑھی،پھر ظہر کے فورًا بعد صحیح حیض شروع ہوا ۔ عادت مہینے کے آخری ایام میں چھ دن کی ہے۔تیس اگست کو حیض شروع ہوا اور پانچ ستمبر کو ختم ہوا،اگلے مہینے اٹھائیس ستمبر کو شروع ہوا اور پانچ اکتوبر کو ختم ہوا،اس سے پہلے کی تاریخیں یاد نہیں ہیں۔  اور  اس دفعہ بائیس اکتوبر بروز جمعہ  کو براؤن نشان آیا،پھر ہفتہ کے دن کوئی نشان نہیں آیا ،اتوار کے دن ظہر کے بعد سے سرخ خون شروع ہوا۔

معلوم یہ کرنا ہے کہ میرا حیض جمعہ کو شروع ہوا یا اتوار کو ؟درمیان میں جو نمازیں پڑھیں ان کا گناہ ہوگایا نہیں؟

جواب

شرعاً دو حیضوں کے درمیان کم سے کم پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب پاکی کے  تقریباًسولہ سترہ  دن بعد سائلہ کو  بائیس اکتوبر بروز جمعہ  مغرب کے بعد  براؤن نشان آیا اور اس کے ایک دن بعد اتوار سے سرخ خون آنا شروع ہوا  ہےتو سائلہ کا حیض  جمعہ کے دن مغرب کے بعد سے   شمار ہوگااور ایام ِعادت کے بقدر  حیض ہوگا، لیکن اگر خون عادت کے دنوں سے بڑھ  جائے اور دس دن مکمل ہونے  پر   یا دس دن مکمل ہونے سے پہلے رک جائے تو  سائلہ کی عادت تبدیل شمار ہوگی اور اگر دس دن سے بڑھ جائے تو  پھر  ایامِ عادت سے زائد  خون استحاضہ کا ہوگا اور سائلہ کے  حیض کے ایام وہی ہوں گے جو پہلے عادت ہے ۔

باقی مذکورہ براؤن نشان آنے کے بعد سائلہ نے یہ گمان کرکے کہ ابھی تک حیض شروع نہیں  ہوا جتنی  نمازیں پڑھی ہیں،اس کی وجہ سے سائلہ  پر  کوئی گناہ نہیں ہے ۔

حاشية ابن عابدين ميں هے:

"و وقت ثبوته بالبروز، فيه تترك الصلاة (قوله: فيه) أي فبالبروز تترك الصلاة و تثبت بقية الأحكام، و لكن هذا ما دام مستمرًّا لما سيأتي من أنه لو انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي۔ثم اعلم أنه لا يشترط استمرار الدم فيها بحيث لا ينقطع ساعة؛ لأن ذلك لا يكون إلا نادرًا بل انقطاعه ساعة أو ساعتين فصاعدا غير مبطل، كذا في المستصفى بحر: أي؛ لأن العبرة لأوله وآخره كما سيأتي."

(باب الحيض:1/ 284،ط:سعيد)

الفتاوى العالمكيرية   میں ہے:

"(ومنها) أن يكون على لون من الألوان الستة: السواد والحمرة والصفرة والكدرة والخضرة والتربية هكذا في النهاية وإنما يعتبر اللون على الكرسف حين يرفع وهو طري لا حين يجف. هكذا في المحيط ... الطهر المتخلل بين الدمين والدماء في مدة الحيض يكون حيضًا."

(کتاب الحیض،الباب السادس في الدماء المختصة بالنساء:1/ 36،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

و فیہ ایضاً (1/ 37):

"فإن لم يجاوز العشرة فالطهر والدم كلاهما حيض سواء كانت مبتدأة أو معتادة وإن جاوز العشرة ففي المبتدأة حيضها عشرة أيام وفي المعتادة معروفتها في الحيض حيض والطهر طهر. هكذا في السراج الوهاج."

و فیہ ایضاً(1/ 39):

"فإن رأت بين طهرين تامين دمًا لا على عادتها بالزيادة أو النقصان أو بالتقدم والتأخر أو بهما معًا انتقلت العادة إلى أيام دمها حقيقيًّا كان الدم أو حكميًّا هذا إذا لم يجاوز العشرة فإن جاوزها فمعروفتها حيض و ما رأت على غيرها استحاضة فلاتنتقل العادة، هكذا في محيط السرخسي."

«سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط» ميں ہے:

"عن أبي ذر الغفاري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله قد ‌تجاوز ‌عن أمتي الخطأ و النسيان و ما استكرهوا عليه."

فقط و اللہ اعلم(باب طلاق المكره والناسي:199/3،ط:دار الرسالۃ العالمیۃ)


فتوی نمبر : 144303100626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں