لڑکیوں کے ہوسٹل میں نماز کے لیے جگہ بنائی گئی ہے، اس جگہ پر لڑکیاں سوتی ہیں، کھانا پینا بھی ہوتا ہے اور پڑھائی بھی کرتی ہیں، کیا ایسی جگہ پر حائضہ عورت داخل ہو سکتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں لڑکیوں کے ہوسٹل میں نماز کے لیے جو جگہ بنائی گئی ہے، اگر وہ مسجد کے لیے وقف نہیں کی گئی تو وہ جگہ شرعی مسجد کے حکم میں نہیں ہے، ایسی جگہ پرحائضہ عورت جا سکتی ہے، کھانا، پینا ور سونا جائز ہے۔
البحر الرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:
"حاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس هذا هو ظاهر المذهب وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجدا لأنه من المصالح فإن قلت: لو جعل مسجدا ثم أراد أن يبني فوقه بيتا للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجدا وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه وفي جامع الفتوى إذا قال عنيت ذلك فإنه لا يصدق. اهـ."
(کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ج: ۱، صفحہ: ۲۷۱، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :
"سوال: مسجدشرعی کس کوکہتے ہیں ؟
الجواب: مسجد شرعی وہ ہے کہ کوئی ایک شخص یاچنداشخاص اپنی مملوکہ زمین مسجد کےنام سے اپنی ملک سے جداکردیں ، اوراس کاراستہ شاہ راہ عام کی طرف کھول کر عام مسلمانوں کواس میں نماز پڑھنے کی اجازت دیدیں ،جب ایک مرتبہ اذان وجماعت کے ساتھ اس جگہ نماز پڑھ لی جاوے تویہ جگہ مسجد ہوجائے گی۔"
(فتاوی دارالعلوم دیوبند ،کتاب المساجد ،ج: ۲، صفحہ: ۶۳۵، ط:دارالاشاعت )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101490
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن