بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکی ناپاکی کے مسائل سے ناواقف لوگوں کے گھروں میں موجود پانی سے وضو و غسل کرنے کا حکم


سوال

ایک مسلمان کو اگر شرعی مسائل کا علم نہ ہو خاص کر پاکی ناپاکی کا ،ایسے لوگوں کے گھر اگر کسی ضرورت سے جانا ہوا تو پھر ان کے برتنوں مثلًا بالٹی اور لوٹو ں کے پانی سے وضو کرنے سے نماز درست ہو جاتی ہے؟ اور اگر بطور عذر درست ہوجاتی ہے،  پھر گھر میں آ نے کے بعد اس وضو سے نماز جائز ہے؟ اور اگر جائز نہیں تو پھر اس وضو کا پانی جو کپڑوں پر لگا ہوتا ہے تو پھر کپڑوں کا کیا حکم ہے؟مزید یہ کہ بعض لوگوں کو مسائل کا علم تو نہیں ہوتا، مگر ایک حد تک احتیاط کرتے ہیں، یعنی اگر پاکی کی حد تک نہیں کرتے تو صفائی کے حد تک کرتے  ہیں اور بعض نہ تو پاکی کی حد تک کرتے ہیں اور نہ صفائی کے حد تک، دونوں کے بارے میں وضاحت فرمادیجیے ؟

جواب

جب تک کسی جگہ موجود پانی  (جس میں نجاست کا کوئی اثر نظر نہ آئے)  کے بارے میں یقین سے معلوم نہ ہو کہ اس میں کوئی نجاست وغیرہ گر گئی ہے تو اس وقت تک وہ پانی پاک ہی شمار ہوگا اور اس پانی سے وضو اور غسل کرنا جائز ہوگا اور اس پانی سے کیے ہوئے وضو و غسل سے گھر آکر بھی نمازیں پڑھیں جاسکتی ہیں، اور ایسا پانی اگر کپڑوں پر گر جائے تو کپڑے پاک ہی تصور کیے جائیں گے، البتہ اگر پانی میں نجاست کا اثر ظاہر ہوجائے یا یقینی طور سے معلوم ہوجائے کہ پانی نجس ہوچکا ہے تو پھر اس پانی سے وضو یا غسل کرنا جائز نہیں ہوگا، اور کپڑوں پر لگنے کی صورت میں کپڑے بھی پاک کرنے پڑیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صرف پانی کے ناپاک ہونے کے شک سے پانی ناپاک نہیں سمجھا جائے گا جب تک ناپاکی کا یقین نہ ہوجائے ۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 457):

"وعن يحيى بن عبد الرحمن، قال: إن عمر خرج في ركب فيهم عمرو بن العاص حتى وردوا حوضا. فقال عمرو: يا صاحب الحوض، هل ترد حوضك السباع؟ قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: يا صاحب الحوض، لا تخبرنا، فإنا نرد على السباع وترد علينا. رواه مالك.

(فيهم عمرو بن العاص حتى وردوا حوضًا) : أي: وحضروا صلاة (فقال عمرو: يا صاحب الحوض، هل ترد حوضك السباع؟ فقال عمر بن الخطاب: يا صاحب الحوض، لا تخبرنا) : قال الطيبي: يعني أن إخبارك بورودها وعدمه سواء، فإن أخبرتنا بسوء الحال فهو عندنا جائز سائغ. قال ابن حجر: لأنا لا نمتنع مما ترده ؛ لعسر تجنبه المقتضي لبقائه على طهارته (فإنا نرد على السباع وترد علينا) : أي: لا نخالط السباع وهي واردة علينا. قال ابن حجر: لأنا نرد على ما فضل منها، وهي ترد على ما فضل منا اهـ.والأظهر أن يحمل قوله: لا تخبرنا على إرادة عدم التنجس، وبقاء الماء على طهارته الأصلية، ويدل عليه سؤال الصحابي، وإلا فيكون عبثا، ثم تعليله بقوله: فإنا. . . إلخ إشارة إلى أن هذا الحال من ضرورات السفر، وما كلفنا بالتفحص، فلو فتحنا هذا الباب على أنفسنا لوقعنا في مشقة عظيمة (رواه مالك) : وسنده صحيح، قاله ابن حجر".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں