بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پختون قوم کے مخصوص رقص کا حکم


سوال

کیا پٹھان قوم کا خوشی کے موقع پر اپنا روایتی رقص  " اتن" کرنا جائز ہے؟ 

جواب

رقص کی مروجہ کیفیات جن میں تھرکنے اور لچکنے کی کیفیت پائی جاتی ہے اور مخنث لوگوں کے طریقہ سے مماثلت رکھتا ہے،یہ ہر حال میں ناجائز اور حرام ہے، نیز چوں کہ رقص و سرود  سے حیا و مروت ختم ہوجاتی ہے، اس اعتبار سے اس گناہ کی معصیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ نیز اگر اس رقص کے ساتھ موسیقی کے آلات اور گانے باجے بھی ہوں تو  اس کے گناہ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، اس لیے کہ شریعت میں موسیقی حرام ہے؛ لہذا پختون قوم کا مخصوص رقص "اتن" ہو یا کوئی طریقہ، شرعًا جائز نہیں۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 259):

"و من يستحل الرقص قالوا بكفره ... و لا سيّما بالدف يلهو و يزمر.

(قوله: و من يستحل الرقص قالوا بكفره) المراد به التمايل و الخفض و الرفع بحركات موزونة كما يفعله بعض من ينتسب إلى التصوف.

و قد نقل في البزازية عن القرطبي: إجماع الأئمة على حرمة هذا الغناء و ضرب القضيب و الرقص. قال: ورأيت فتوى شيخ الإسلام جلال الملة والدين الكرماني: أن مستحل هذا الرقص كافر، وتمامه في شرح الوهبانية. ونقل في نور العين عن التمهيد: أنه فاسق لا كافر."

الموسوعة الفقهية الكويتية (23/ 9):

"رقص: التعريف:... واصطلاحاً: عرف ابن عابدين الرقص بأنه التمايل، والخفض، والرفع بحركات موزونة ... فذهب الحنفية والمالكية والحنابلة والقفال من الشافعية إلى كراهة الرقص معللين ذلك بأن فعله دناءة وسفه، وأنه من مسقطات المروءة، وأنه من اللهو. قال الأبي: وحمل العلماء حديث رقص الحبشة على الوثب بسلاحهم، ولعبهم بحرابهم، ليوافق ما جاء في رواية: يلعبون عند رسول الله بحرابهم ۔ وهذا كله ما لم يصحب الرقص أمر محرم كشرب الخمر، أو كشف العورة ونحوهما، فيحرم اتفاقاً."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144207200412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں