بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پاخانہ کے راستہ سے آنے والے پانی سے کپڑے ناپاک ہوں گے یا نہیں؟/ وضو ٹوٹے گا یا نہیں/اور ایسا معذور شخص امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟


سوال

 ایک شخص کو پاخانے کے راستے سے پانی آتا ہے، وہ ڈاکٹروں کے پاس گیا تو انہوں اس کو کہا کہ: تمہیں کوئی بیماری نہیں،بواسیر وغیرہ کی وجہ سے جو پانی آتا ہے وہ کپڑوں پر داغ بناتا ہے، اور یہ داغ نہیں بناتا، یہ تمھیں وہم ہے، اور اس کو سکون کی گولیاں دیتے ہیں، تو کیا یہ شخص معذور ہےیا  نہیں؟ اور اس کے کپڑے ناپاک ہونگے یا نہیں ؟اور یہ امامت کر سکتا ہے یا نہیں ؟راہنمائی فرمائیں ۔

جواب

 پاخانہ کی جگہ سے نکلنے والا پانی ناپاک ہے،اور اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے،باقی شرعاً "معذور " ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جس کو وضو توڑنے کے اسباب میں سے کوئی سبب (مثلاً ریح،خون ، قطرہ وغیرہ) مسلسل پیش آتا رہتا ہو  اور ایک نماز کے مکمل وقت میں اس کو اتنا وقت بھی نہ ملتا ہو کہ وہ با وضو ہو کر وقتی فرض ادا کر سکے،ابتداءً اس سے آدمی  معذور بن جاتا ہے،پھر جس عذر کی بنا پر معذور بنا ہےوہ عذر ہر نماز کے وقت میں پایا جائے تو آدمی معذور باقی رہتا ہے،   معذور شرعی کی تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے آپ اپنے  معذور ہونے نہ ہونے کا خود فیصلہ کرسکتے ہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

" و صاحب عذر من به سلس بول لا يمكنه إمساكه او استطلاق بطن او انفلات ريح... إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بان لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً ؛ لان الانقطاع اليسير ملحق بالعدم".

(باب الحيض: مطلب في احكام المعذور ٣٠٥/١ ط سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله .... المستحاضة ومن به سلس البول .… یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل .… ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق .… إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع، ج:1، ص:40، ط:رشيدية)

پاخانہ کی جگہ سے نکلنے والا پانی ناپاک ہے، اگر یہ کپڑوں پر  لگ   جائے  تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس تسلسل سے نکل رہاہے،   اگر اتنا وقفہ ملتاہو کہ کپڑادھوکرنماز پڑھے تو نماز کے درمیان  وہ دوبارہ ناپاک نہ ہو  تو  دھونا واجب ہے ، اوراگر یہ حالت ہو کہ کپڑا دھو کر نماز پڑھنے کے درمیان وہ پھرناپاک ہوجاتا ہو تو دھونا واجب  نہیں ۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"و في 'واقعات الناطفي' : إذا كان له جرح سائل، وقد شد عليه خرقة، فأصابها أكثر من قدر الدرهم أو أصاب ثوبه أكثر من قدر الدرهم، إن كان بحال لو غسل يتنجس قبل الفراغ من الصلاة ثانيًا جاز له أن لايغسل ويصلي قبل أن يغسله، وإلا فلا. قال الصدر الشهيد رحمه الله هو المختار."

(كتاب الطهارات، الفصل الثاني: في بيان ما يوجب الوضوء وما لا يوجب، ١ / ٥٧، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

 معذورِ شرعی  صحت مند افراد کی امامت کے اہل نہیں ہے،اور جسے کبھی کبھار مذکورہ عذر پیش آتا ہو وہ پاکی کی حالت میں  پاک کپڑوں کے ساتھ  امامت کرواسکتا ہے۔

الدر مع الرد میں ہے:

"ولا طاهر بمعذور".

(باب الإمامة، ١/ ٥٧٨، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں