بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاک قطر تکافل کی پالیسی لینا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

کیا پاک قطر کی پالیسی لینا جائز اور حلال ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی بھی قسم کی  بیمہ (انشورنس) پالیسی  سود اور قمار (جوا) کا مرکب  ومجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اور  مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر  بعض ادارے  جو ”تکافل“ کے عنوان سےنظام  چلارہے ہیں وہ بھی ناجائزہے،لہذا "پاک قطر فیملی تکافل" اور  موجودہ دور میں اس جیسی جتنی دیگر پالیسیاں ہیں، ان کی پالیسی لینے اور اس میں رقم جمع کرانےسے اجتناب کرنا لازم ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾[المائدة: 90]

ترجمہ:" اے ایمان والوں! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کی تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہے، سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

(سورۃ المائدۃ، رقم الآیۃ: 90، ترجمہ: بیان القرآن)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال هم سواء".

(صحیح مسلم، کتاب المساقات، ج:3، ص:1219، ط: دار إحیاء التراث العربی)

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرمﷺ نے سود کھانے والے، اور کھلانے والے اور (سودکاحساب) لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے،اور فرمایا: کہ وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔"

     فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6 / ص: 403، ط: سعید)

      البحر الرائق  میں ہے:

"(قوله : ولا يملك الوقف) بإجماع الفقهاء، كما نقله في فتح القدير؛ ولقوله عليه السلام لعمر -رضي الله عنه-: «تصدق بأصلها لاتباع ولاتورث». ولأنه باللزوم خرج عن ملك الواقف وبلا ملك لايتمكن من البيع، أفاد بمنع تمليكه وتملكه منع رهنه، فلا يجوز للمتولي رهنه".

      (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الوقف، ج: 5 / ص: 221، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں