بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاک قطر تکافل کمپنی کا حکم


سوال

کیاپاک قطر تکافل سے فائدہ اٹھاناجائزہے ؟ اس کی پالیسیوں سے جو مالی فائدہ ہوتا ہے وہ لیناجائزہے؟پاک قطرتکافل والے جامعہ بنوریہ کا ایک فتوی بھی لوگوں کو  دکھارہے ہیں، جو 6۔18۔2010کودیاگیا ہے،  سیریل نمبر8745ہے،   براۓ مہربانی راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ  تکافل  جہاں  شرعی محرمات پر مشتمل ہے وہاں  قابل مذمت کردار  اور   غریب کے  استحصال  کو بھی  متضمن  ہے ،مروجہ تکافل  میں سود ، جوا ، دہوکہ  دہی اور استحصالی عنصر جیسی خرابیاں موجود  ہیں۔

تکافل میں حصہ لینے والا شخص  کمپنی کو جو رقم ادا کرتا ہے ، کمپنی حسب معاہدہ وہ رقم بمعہ اضافہ کے لوٹاتی ہے، یہ اضافہ بعینہ سود  ہے جو کہ شرعا حرام ہے۔بعض صورتوں میں حصہ دار کو  معاہدہ پورا ہونے پر کچھ رقم بھی واپس نہیں ملتا ،   یا اداکردہ رقم بمعہ اضافہ کے مل جاتی ہے ، یہ معاہدہ ان دو صوتوں میں   محصور ہوتا ہے، ان میں سے کوئی ایک صورت بھی یقینی نہیں ہوتی  ، یہ   جوا اور قمار ہے جو کہ جائز نہیں ۔

اس کے علاوہ دہوکہ دہی، استحصالی عنصر جیسی   خرابیاں بھی پائی جاتی ہے ، لہذاجمہور علماء کرام  کے نزدیک  کسی بھی قسم     کی بیمہ  (انشورنس  )پایسی سود اور قمار(جوا) کا مرکب ومجموعہ ہونے کی وجہ سے  ناجائز  اور حرام ہے ، اور مروجہ انشورنس  کے متبادل  کے طور پر  بعض ادارے  جو "تکافل  " کے عنوان سے  نظام چلا رہے ہیں ،وہ بھی شرعی حدود کی رعایت نہ رکھنے کی وجہ سے، جائز  نہیں  ہے،  لہذا " پاک قطر تکافل  " اور موجودہ  دور میں اس جیسی جتنی دیگرکمپنیاں کام کررہی   ہیں ، اس کی   پایسیاں  لینے اور اس میں  رقم جمع کرانے سے اجتناب لازم ہے، اور اس کا نفع حرام ہے۔

باقی سائل نے پاک قطر تکافل کمپنی کے بارے میں جس فتوی کا حوالہ دیا ہے، ہمارے دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن  سے تکافل کے جواز کے متعلق ایسا کوئی فتوی جاری نہیں ہوا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"الغرر هو الخطر الذي استوى فيه طرف الوجود والعدم بمنزلة الشك۔"

(فصل فی شرائط  الصحۃ فی البیوع/ج:11/ص:186/ط:بیروت)

شرح  صحیح البخاری لابن بطال میں ہے:

"(وتوعد تعالى من لم يتب منه بمحاربة الله ورسوله وليس فى جميع المعاصى ما عقوبتها محاربة الله ورسوله غير الربا ، فحق على كل مؤمن أن يجتنبه ، ولا يتعرض لما لا طاقة له به من محاربة الله ورسوله ، ألا ترى فهم عائشة هذا المعنى حيث قالت للمرأة التى قالت لها : بعت من زيد من أرقم جارية إلى العطاء بثمانمائة درهم ، ثم ابتعتها منه بستمائة درهم نقدًا ، فقالت لها عائشة : بئس ما شريت ، أبلغى زيدًا أنه قد أبطل جهاده مع رسول الله إن لم يتب . ولم تقل لها : إنه أبطل صلاته ولا صيامه ولا حجه ، فمعنى ذلك - والله أعلم - أن من جاهد فى سبيل الله فقد حارب عن الله ، ومن فعل ذلك ثم استباح الربا ، فقد استحق محاربة الله۔"

(کتاب البیوع/ج:6/ص:219/ط:مکتبۃ الرشد السعودیہ)

الاختیار میں ہے:

"قوله عليه الصلاة والسلام :' كل قرض جر منفعة فهو ربا"۔

(کتاب البیوع/ج:2/ص:34/ط:دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں