بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پاک قطر فیملی تکافل اور اس میں ملازمت کرنے کا حکم


سوال

" پاک قطر فیملی تکافل" کے بارے میں فتویٰ درکار ہے، نیز اس کمپنی میں جاب کرنا/ ملازمت کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مروجہ تکافل کمپنیوں کا نظام شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے ، اس لیے ایسی تکافل کمپنیوں کی پالیسی خرید کر اس میں شامل ہونا  اور اس میں ملازمت کرنابھی جائز نہیں ہے، انشورنس کی طرح تکافل بھی سود ، قمار (جوا) اور غرر(دھوکہ) پرمشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے ، خواہ پاک قطر فیملی تکافل ہو یا کوئی اور۔

تکافل کے نظام کو جائز قرار دینے والے اس کی بنیاد وقف کے قواعد پر قرار دیتے ہیں ، لیکن اس میں وقف کے قواعد کی بھی رعایت نہیں کی جاتی ، ذیل میں اس نظام کی چند بنیادی خرابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے:

الف۔۔۔ مروجہ تکافل میں ابتداء وقف فنڈ قائم کرنے والے خود اپنا بھی تکافل کرواتے ہیں ، اور اپنی ہی وضع کردہ شرائط وقف کے تحت اپنے ہی موقوفہ مال سے فوائد اٹھاتے ہیں ، حالانکہ اولا نقود کا وقف بذات خود محل نظر ہے ، ثانیا اگر تعامل کی وجہ سے نقود کے وقف کو درست مان لیں تو نقود کا وقف کرنے والا خود اپنے ہی وقف کردہ منقولی شیئ سے نفع نہیں اٹھا سکتا یعنی منقولی اشیاء میں وقف علی النفس درست نہیں ہے۔

ب۔۔۔ اس نظام میں ایک اور خرابی یہ ہے کہ عقد کی نسبت کمپنی (شخص قانونی ) کی طرف کی جاتی ہے جو کہ ایک فرضی اور معنوی چیز ہے حالانکہ عقد کےدرست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عاقدین عاقل، ممیز ہو ، اور ظاہر ہے کہ جب کمپنی عاقل نہیں ہے تو حقیقت میں تمام معاملات کمپنی کے ڈائریکٹرز ہی کرتے ہیں، لہذا جب ڈائریکٹرز ایک شخص قانونی (وقف فنڈ) کو رب المال اور دوسرے شخص قانونی (کمپنی) کو مضارب بناتے ہیں اس حال میں کہ دونوں کے متولی وہ خود ہوتے ہیں تو حقیقت میں وہ ڈائریکٹر ہی دونوں عقد کو سر انجام دے رہے ہوتے ہیں، جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک ہی شخص یعنی وہ ڈائریکٹر خود ہی رب المال ہوتا ہے اور خود ہی مضارب بھی ، جو کہ شرعا درست نہیں۔

ج۔۔۔ مجوزین حضرات خود کہتے ہیں کہ چندہ کی رقم وقف کی ملکیت ہے ، لہذا شریعت کی رو سے اس رقم کو وقف کے مصالح میں خرچ کرنا ضروری ہے، واقف کو واپس دینا یا وقف کیا(مال/رقم) واپس لینا شریعت میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے، حالانکہ مروجہ تکافل میں چندہ کی رقم چندہ دہندگان کو مختلف ناموں سے واپس کی جاتی ہے جس کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں ہے۔

د۔۔۔انشورنس کو جن خرابیوں کی بنیاد پر حرام قرار دیا گیا ہے ان میں سے سر فہرست سود اور غرر ہے جو کہ تکافل میں بھی پائی جاتی ہے۔وہ اس طرح کہ اگر پالیسی ہولڈر مدت پوری ہونے سے پہلے فوت ہوجائے تو اسکو پالیسی کے تحت طے شدہ رقم دی جاتی ہے ،جسکا ایک حصہ اس نے ادا ہی نہیں کیا ہوتا،اور کمپنی قانونی طور پر اس کی پابندہوتی ہے۔اور غرر اس طرح کہ اس میں دونوں طرح کا احتمال ہے ،ممکن ہے کہ جس نقصان کے ازالہ کےلئے پالیسی لی گئی ہے وہ پیش ہی نہ آئے،اور ادا کی ہوئی رقم بے کار اور ضائع جائے،اور یہ بھی احتمال ہےکہ وہ پیش آجائے۔اور ربا اس طرح ہے کہ پالیسی ہولڈر اور وقف فنڈکے درمیان ہونے والا عقد،عقد معاوضہ کی حیثیت رکھتا ہے اور عقد معاوضہ میں کمی بیشی ربا ہوتا ہے،لہذا مروجہ تکافل میں بھی کمی بیشی پائی جانے کی وجہ سے یہ بھی ربا میں داخل ہے۔

لہذا  کسی بھی قسم کا تکافل کرانا ،اسکا ممبر بننا اور اس میں ملازمت کرنا شرعا جائز نہیں ہے،چاہےپاک قطر  فیملی تکافل ہو یا کوئی اور۔اور اگر معاملہ کر لیا ہو تو ختم کردیاجائے،نیز تکافل کمپنی سے صرف اصل رقم وصول  کرسکتے ہیں،زائد وصول نہیں کی جاسکتی،اور اگر زائد وصول کر لی ہوتو اس کو بغیر نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ" 

(سورۃ البقرۃ ،الایۃ:278)

ترجمہ:"اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اسکو چھوڑ دواگر تم ایمان والے ہو ۔"

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

" ٱلَّذِينَ يَأۡكُلُونَ ٱلرِّبَوٰاْ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِي يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيۡطَٰنُ مِنَ ٱلۡمَسِّۚ...... الآية"

(سورۃ البقرۃ ،الایۃ:275)

ترجمہ:"جو لوگ سود کھاتے ہیں ،نہیں کھڑے ہونگے مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان خبطی بنا دے۔"

قرآن کریم میں ہے:

" يَمۡحَقُ ٱللَّهُ ٱلرِّبَوٰاْ وَيُرۡبِي ٱلصَّدَقَٰتِۗ...... الآية"

(سورۃ البقرۃ ،الایۃ:276)

ترجمہ:"الله تعالی سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔"

 مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الربا سبعون جزءاً أيسرها أن ینکح الرجل أمه."

(باب الربا،ج:2ص:859،ط:المكتب الإسلامي  بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

 "(منها) أن يكون مما لا ينقل ولا يحول كالعقار ونحوه، فلا يجوز وقف المنقول مقصودا لما ذكرنا أن التأبيد شرط جوازه، ووقف المنقول لا يتأبد لكونه على شرف الهلاك، فلا يجوز وقفه مقصودا إلا إذا كان تبعا للعقار.... الخ."

(کتاب الوقف،فصل فی الشرائط التی ترجع الی الموقوف،ج:6،ص:220،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وأما وقف ما لا ينتفع به إلا بالإتلاف كالذهب والفضة والمأكول والمشروب فغير جائز في قول عامة الفقهاء، والمراد بالذهب والفضة الدراهم والدناير وما ليس بحلي كذا في فتح القدير."

(کتاب الوقف ،باب فیما یجوز وقفہ وما لا یجوز ،ج:2،ص:365،ط:دار الکتب العلمیۃ)

 فتاویتاتار خانیہ میں ہے:

"یجب ان یعلم ان وقف المنقول تبعا للعقار جائز بان جعل ارضه وقفا مع العبید و الثیران یعملون فیھا……….واما وقفه مقصودا ان کان کراعا او سلاحایجوز…………وان کان سوی ذٰلک شیئا لم یجری التعارف بوقفه کالثیاب والحیوان لایجوز عندنا، وان کان متعارفا کالفاس  القدوم والجنازۃ………..قال ابو یوسف لا یجوز، وقال محمد یجوز، والیه ذھب عامة المشائخ، منھم الامام شمس الائمة الحلوانی…………..وفی الفتاوی العتابیة وقف دراھم او مکیلا او ثیابا لم یجز، وقیل فی موضع یتعارفون ذٰلک یفتی بالجواز."

(کتاب الوقف ،الفصل الثالث فی وقف المنقول،ج:8،ص:28 تا 30،ط:مکتبہ زکریا،دیوبند)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"اتفق الجمہور غیرالحنفیة علی جواز وقف المنقول مطلقا کآلآت المسجد……..ولم یجز الحنفیة وقف المنقول ومنه عندھم البناء والغرس الا اذا کان تبعا للعقار أو ورد به النص کالسلاح والخیل أو جری به العرف کوقف الکتب والمصحف……...والدنانیر والدراھم والکیل والموزون……….لتعامل الناس به،التعامل وھو الأکثر استعمالا یترک به القیاس………ویباع المکیل والموزون ویدفع ثمنه مضاربة او مباضعة کما یفعل فی النقود،وما  خرج من الربح یتصدق به فی جھة الوقف،لکن قال ابن عابدین:وقف الدراھم متعارف فی بلاد الروم دون بلادنا………….والسبب فی عدم جواز وقف المنقول عندھم ان من شرط الوقف التابید والمنقول لایدوم."

(الباب الخامس الوقف،الفصل الثانی انواع الوقف ومحلہ،ج:8،ص:163۔164،ط:دار الفکر)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وظاهر ما مر في مسألة البقرة اعتبار العرف الحادث، فلا يلزم كونه من عهد الصحابة، وكذا هو ظاهر ما قدمناه آنفا من زيادة بعض المشايخ أشياء جرى التعامل فيها وعلى هذا فالظاهر اعتبار العرف في الموضع، أو زمان الذي اشتهر فيه دون غيره فوقف الدراهم متعارف في بلاد الروم دون بلادنا وقف الفأس والقدوم كان متعارفا في زمن المتقدمين ولم نسمع به في زماننا فالظاهر أنه لا يصح الآن ولئن وجد نادرا لا يعتبر لما علمت من أن التعامل هو الأكثر استعمالا."

(کتاب الوقف،مطلب فی وقف المشاع المقضی بہ،ج:4،ص:364،ط:سعید)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وشرطه امور منھا فی العاقد ان یکون عاقلا ممیزا."

(کتاب البیوع،الفصل الاول فی بیان رکنہ،ج:8ص:212،ط:مکتبہ زکریا)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"اما شرائط الانعقاد فانواع منھا فی العاقد وھو ان یکون عاقلا ممیزا."

(کتاب البیوع،الباب الاول فی تعریف البیع رکنہ،ج3،ص3 ،ط:دار الکتب العلمیۃ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) شرائط الانعقاد فأنواع: بعضها يرجع إلى العاقد، وبعضها يرجع إلى نفس العقد، وبعضها يرجع إلى مكان العقد، وبعضها يرجع إلى المعقود عليه، (أما) الذي يرجع إلى العاقد فنوعان: أحدهما أن يكون عاقلا، فلا ينعقد بيع المجنون والصبي الذي لا يعقل؛ لأن أهلية المتصرف شرط انعقاد التصرف والأهلية لا تثبت بدون العقل فلا يثبت الانعقاد بدونه……..، والثاني العدد في العاقد فلا يصلح الواحد عاقدا من الجانبين في باب البيع إلا الأب فيما يبيع مال نفسه من ابنه الصغير بمثل."

(کتاب البیوع،ج4،ص:135،ط: سعید)

بحرالرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"قوله: (ولا يملك الوقف) بإجماع الفقهاء كما نقله في فتح القدير، ولقوله عليه السلام لعمر رضي الله عنه تصدق بأصلها لا تباع ولا تورث ولانه باللزوم خرج عن ملك الواقف وبلا ملك لا يتمكن من البيع أفاد بمنع تمليكه وتملكه منع رهنه فلا يجوز للمتولي رهنه."

(کتاب الوقف،ج5،ص341،ط: دار الکتب العلمیۃ)

الفقه الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"اذا صح الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته."

(الباب الخامس الوقف،الفصل الثالث حکم الوقف ،ج:8،ص:169،ط:دار الفکر)

فتح القدير میں ہے:

"(قوله وإذا صح الوقف) أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف. ثم قوله (لم يجز بيعه ولا تمليكه) هوبإجماع الفقهاء (إلا أن يكون مشاعا فيطلب شريكه القسمة عند أبي يوسف فتصح مقاسمته، أما امتناع التمليك فلما بينا) من قوله - عليه الصلاة والسلام - «تصدق بأصلها لا يباع ولا يورث ولا يوهب» ومن المعنى وهو أن الحاجة ماسة إلى آخره، ولأنه باللزوم خرج عن ملك الواقف وبلا ملك لا يتمكن من البيع."

(کتاب الوقف،ج6،ص204،ط: دار الکتب العلمیۃ)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(مطلب فیمن ورث مالا حراما،ج5،ص99،ط:سعید)

فتاوی تاتار خانيہ  میں ہے:

"وفی  الفتاوی العتابیة واما المعصیة نحو ان یستاجر نائحة او مغنیة او لیعلم الغناء او استاجر بربطا او نحوہ،او استاجر الذمی رجلا لیخصی عبدا لایجوز."

(کتاب الاجارۃ،الفصل الخامس عشرالاستیجار علی المعاصی،ج15،ص131،ط:مکتبہ زکریا ،دیوبند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں