بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پاک قطر فیملی تکافل سے متعلق جامعہ کا موقف


سوال

 ہمارے علاقے کے مولانا صاحب پاک قطر فیملی تکافل میں کام کرتے ہیں ، انہوں نے  مجھے بھی تکافل کروانے کا کہا تھا ، میں نے عرض کیا کہ مفتیانِ کرام اس کو جائز نہیں سمجھتے تو انہوں نے  مجھے کئی فتاوی دکھائے جو مختلف دارالافتاء کے تھے ،  پھر آپ کی ویب سائٹ پر میں نے پاک قطر فیملی تکافل کے بارے میں فتویٰ تلاش کیا،  جس کا نمبر 143909201347 ہے،  جس میں عدمِ جواز بتایا گیا ہے تو میں نے وہ فتویٰ ان کو دکھایا،  جس پر انہوں نے مجھے ایک کتاب بھیجی،  جس کا نام" تکافل کی شرعی حیثیت" ہے،    مجھے تو اس کی سمجھ نہیں آئی ، آپ بتائیں کہ کیا تازہ تحقیق سے پاک قطر فیملی تکافل کا جواز ثابت ہو چکا ہے یا نہیں؟

جواب

  جمہور علماءِ کرام کے نزدیک  کسی بھی قسم کی  بیمہ (انشورنس) پالیسی  سود اور قمار (جوا) کا مرکب  ومجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اور  مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر  بعض ادارے   ”  تکافل“ کے عنوان سے جو نظام  چلارہے ہیں، وہ بھی ناجائز ہے؛ اس لیے پاک قطر فیملی  تکافل یا اس  جیسی جتنی  بھی تکافل  کرنے والے ادارے ہیں،  ان سے   ان سے تکافل کرانا ،پالیسی لینا ،اور رقم جمع کرانے سے اجتناب لازم ہے، اور جس   فتوی کا آپ نےذکر کیا وہ ہمارے جامعہ کا  فتوی ہے اور  اور اب بھی تکافل سے متعلق  یہی فتویٰ ہے۔

تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

تکافل ماڈل اور اس کی شرعی خرابیاں 

نیز اس مسئلہ کی مزید  تفصیل کے لیے    ”مروجہ تکافل اور شرعی وقف‘‘  اور  ”مروجہ تکافل کا فقہی جائزہ“  نامی کتابوں کا مطالعہ مفید رہے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں