بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاک فوج کے خیموں میں جمعہ قائم کرنا / پاک فوج کے خیموں میں قائم مساجد میں اعتکاف کرنا


سوال

 ہماری پاکستان آرمی کی طرف سے اس ملک میں عارضی تعیناتی ہوئی ہے اور ہم نے  اپنے کیمپ میں کسی جگہ کنٹینرز میں اور کسی جگہ خیموں میں نماز ادا کرنے اور جمعہ پڑھنے کے لئے مساجد بنائی ہوئی ہیں ،دریافت طلب یہ ہے کہ ایسی مساجد میں اعتکاف اور جمعہ پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ جبکہ اس سے قبل جمعہ پڑھایا جارہا تھا۔ 

جواب

واضح رہے کہ جمعہ قائم کرنے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ شہر  یا بڑی بستی ہو  یا کم از کم ایسا بڑا گاؤں ہو جہاں کی کل آبادی کم وبیش  ڈھائی ہزار افراد پر مشتمل ہو، اور وہاں ضروریات زندگی سے متعلق سہولیات موجود ہوں جیسے بازار ، ہسپتال، تعلیم گاہ وغیرہ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی پاک فوج کی طرف سے  جس  علاقہ میں  تعیناتی / تشکیل ہوئی ہے ،وہ علاقہ  اگر شہر یا فناءِ شہر (فناءِ شہر ہر اس جگہ کو کہا جائے گا جو شہر کی ضروریات کے لیے بنائی جائے جیسے قبرستان ،گھڑ دور کا میدان ،فوجیوں کے لیے چھاؤنی وغیرہ) یا بڑے گاؤں ( وہ گاؤں جہاں ضروریات کی ساری اشیاء میسر ہوں اور ہسپتال ، پولیس تھانہ وغیرہ بھی موجود ہو اور آبادی کم و بیش ڈھائی سے تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو)  میں ہے تو  پھر سائل اور اس کے ساتھیوں پر  جمعہ واجب ہوگا ، بشرطیکہ  امام کے علاوہ جماعت میں  تین  یا اس سے زیادہ  بالغ افراد موجود  ہوں،لیکن  اگر  سائل اور اس کے ساتھیوں کی   تعیناتی / تشکیل کسی دیہات /گاؤں میں  ہوئی  ہے تو پھر جمعہ واجب نہیں ہے اور  کنٹینرز اور کیمپوں کی  مسجد میں شرعًا جمعہ جائز نہیں ہوگا،سائل اور  اس کے ساتھی  ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں گے۔

 اعتکاف سے متعلق حکم یہ ہے کہ مردوں کے لیے ایسی مسجد شرعی  میں اعتکاف کرنا شرط ہے جہاں امام و مؤذن مقرر ہو، ایسی مساجد کے علاوہ مصلوں اور گھروں میں اعتکاف کرنے کی شرعاً اجازت نہیں، لہذا صورت مسؤلہ  میں کنٹینر اور خیموں میں بنائی گئی عارضی مساجد میں اعتکاف درست نہیں ہے ۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"ویشترط لصحتها المصر وہو ما لا یسع اکبر مساجدہ اہلہ المکلفین بها أو فناءه وهو ما اتصل به لأجل مصالحه."

(رد المحتار کتاب الصلوۃ  باب الجمعة 2/138 ط:سعید)

حلبی کبیری میں ہے:

"وفي الفتاوى الغیاثیة: لوصلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة كبیرة  لها قرى وفیها وال وحاكم جازت الجمعة بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر."

(ص؛551، فصل في صلاۃ الجمعة، ط؛ سهیل اکیڈمی)

فتاوى  هندية  میں ہے :

"ومنها مسجد الجماعة فيصح في كل مسجد له أذان، وإقامة هو الصحيح كذا في الخلاصة، وأفضل الاعتكاف ما كان في المسجد الحرام ثم في مسجد النبي - عليه الصلاة والسلام - ثم في بيت المقدس ثم في الجامع ثم فيما كان أهله أكثر، وأوفر كذا في التبيين."

(كتاب الصوم ,الباب السابع في الاعتكاف1/ 211ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309101116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں