بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پاک دامن عورت پرزناکی تہمت لگانے کاحکم ؟


سوال

میرے بھائی نے مجھ پر بدکار اور فاحشہ عورت ہونے کا الزام لگایاہے ، جبکہ ایسا کچھ بھی  نہیں  ہے ، میرے تین بچے ہیں جو کہ بالکل جو ان ہیں اور میرے  شوہر ایک شریف آدمی ہیں اور میراللہ  گواہ ہے کہ میں  پاک دامن عورت  ہوں، اسی طرح اس نے میرے بچوں پر بھی الزام لگایاہے  کہ ہم تعویذگنڈے کرتے ہیں اور یہ بھی کہتاہے کہ تیرے یہ بچے حرام خور ہیں اور ناجائز اولاد ہیں ، جب ہم اس سے کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی ثبوت دے تو کوئی ثبوت بھی نہیں لاتا، نہ سامنے بیٹھ کر بات کرتاہے ، نہ معافی  تلافی کرتاہے ، میں اپنے بھائی سے بہت پریشان ہوں ، وہ مجھے اورمیرے بچوں کو پوری برادری میں بدنام کررہاہے ، براہ کرم اس کا حل بتائیں کہ میں اس سے اپنی اور بچوں کی کس طرح جان چھڑاسکتی ہوں ؟ اور میرے بھائی نے جو مجھ پر تہمت لگائی ہے ، اس کی کوئی شرعا سزا ہو تو وہ بھی بتائیں تاکہ میں اپنی برادری  میں بدنام ہونےسے بھی بچ سکوں ۔

جواب

واضح رہے کسی پاک دامن عورت پر زناکی تہمت لگانا سخت حرام اور گناہ کبیرہ ہے، اسلامی قوانین میں ایسے شخص کے لیے جو کسی پاکدامن عورت پر تہمت  لگائے اور پھر اسے چارگواہوں کے ذریعہ ثابت نہ کرسکے تو اس کے لیے اسی ( 80) کوڑوں کی سزاہے ، جس کے نفاذکا اختیار قاضی /عدالت کو ہے عام آدمی ازخود حدکا نفاذ نہیں کرسکتا  ۔

صورت مسئولہ میں سائلہ کے بھائی نے سائلہ پر بدکار اورفاحشہ عورت ہونے کا اوران کے بیٹوں پرناجائزاولاد ہونے کی تہمت لگائی ہے اور اس کے پاس  اپنے دعوی پر کوئی گواہ اور ثبوت بھی نہیں ہے اور وہ اپنی اس بات پر ندامت کے بجائے تشہیر کررہاہے تو  سائلہ کابھائی سائلہ اوراس کے اولاد پر زناکی  تہمت لگانے کی  وجہ سے  سخت حرام اور گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں اورسائلہ کے بھائی پر توبہ اور سائلہ اور ان کے اولاد سے معافی مانگنابھی  لازم ہے ۔جو شخص کسی مسلمان کی ابروکا خیال نہیں رکھتا حدیث شریف میں آتاہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالی رسواکردیتے ہیں ، آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہوگا، نیز اس طرح کی تہمت لگانے کو آپ ﷺ نے ہلاک کرنے والے گناہوں شمار کیاہے ۔اگرسائلہ کا بھائی اس طرح کی تہمتوں سے باز نہیں آتاتو سائلہ اس معاملہ کو حل کرنے کےلیے خاندان کے افردکا ، متعلقہ قانونی ادارے ، عدالت کا سہارالےسکتی ہے ۔

بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اجتنبوا السبع الموبقات»، قالوا: يا رسول الله وما هن؟ قال: «الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات»"

(باب قول الله تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما، إنما يأكلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا4/10 ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: (لوگو) سات ہلاک کردینے والی باتوں سے بچو۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ! وہ سات ہلاک کرنے والی باتیں کون سی ہیں؟ فرمایا: (1)کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا، (2)جادو کرنا، (3)جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا، (4)سود کھانا، (5)یتیم کا مال کھانا، (6)جہاد کے دن دشمن کو پیٹھ دکھانا، (7)پاک دامن ایمان والی اور بے خبر عورتوں کو زنا کی تہمت لگانا۔

 (مظاہر حق جدید)

عنایہ شرح الہدایہ  میں ہے:

"القذف في اللغة الرمي، وفي اصطلاح الفقهاء نسبة من أحصن إلى الزنا صريحا أو دلالة (إذا قذف الرجل رجلا محصنا أو امرأة محصنة بصريح الزنا) ۔۔۔۔۔۔(وطالب المقذوف بالحد) وعجز القاذف عن إثبات ما قذفه به (حده الحاكم ثمانين سوطا إن كان حرا لقوله تعالى {والذين يرمون المحصنات} [النور: 4] إلى أن قال {فاجلدوهم ثمانين جلدة} [النور: 4] الآية، والمراد) بقوله {والذين يرمون} [النور: 6] (الرمي بالزنا بالإجماع) وإليه الإشارة في النص لأنه شرط أربعة من الشهداء وهو مختص بالزنا."

( کتاب الحدود،باب حدالقذف 5/316ط : دار الفكر)

ہندیہ میں ہے :

"ويثبت الزناعند الحاكم ظاهرا بشهادة أربعة يشهدون عليه بلفظ الزنا۔"

(کتاب الحدود ،الباب الثانی فی الزنا2/143ط: دارالفکر)

الدرالمختار میں ہے:

"باب حد القذف هو لغة الرمي. وشرعا الرمي بالزنا، وهو من الكبائر بالإجماع فتح،"

(کتاب الحدود ، باب حدالقذف 4/43ط: سعید)

سنن ابی داود میں ہے:

عن أبي برزة الأسلمى، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "يا معشر من آمن بلسانه ولم يدخل الإيمان قلبه، لا تغتابوا المسلمين، ولا تتبعوا عوراتهم، فإنه من اتبع عوراتهم يتبع الله عورته، ومن يتبع الله عورته يفضحه فى بيته"۔

( باب في الغيبة7/ 242ط:  دار الرسالة العالمية)

ترجمہ :

حضرت ابوبرزہ اسلمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ان لوگوں کی جماعت جو صرف زبان سے ایمان لائے ہو اور ان کے قلوب میں ایمان داخل نہیں ہوا مسلمانوں کی غیبت مت کیا کرو اور نہ ان کی عزت وآبرو کے درپے رہو اس لیے جو کسی کی عزت کے درپے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت کے درپے ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جس کی عزت کے درپے ہوجائیں تو اس کو اپنے گھر بیٹھے رسوا کردیتے ہیں۔ 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144305100330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں