بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پاک اور ناپاک کپڑے ایک ساتھ دھونے کا حکم


سوال

 میں نے کافی سارے کپڑے دھوئے جس میں اکثر ناپاک تھے، تمییز نہ کر سکنے کی صورت میں سبھی کو اکھٹا دھو دیا اس طرح کے مشین میں ڈال کر دھونے والے خانے میں دو مرتبہ پندرہ پندرہ منٹ دھویا ،پھر خشک کرنے والے خانے میں ڈال کر کچھ دیر پائپ سے پانی ڈالتا رہا اور دوسرے پائپ سے پانی آگے بہتا رہا، اس عمل کے بعد دو مرتبہ ٹب میں ڈال کر اس طرح دھوئے کہ پانی اوپر سے بہتا رہا اور کپڑے کا کوئی حصہ پانی سے باہر نہ تھا، لیکن اس کے باوجود ایک دو کپڑوں پہ داغ باقی تھے، کیا اس صورت میں کپڑے پاک ہوگئے ہیں؟ نیز یہ فرمائیں کہ مشین میں دھونے سے ملنے والا عمل پورا ہو جاتا ہے؟ یعنی اگر یہ یقین ہو کہ مشین سے تو صاف نہیں ہوا اگر میں ہاتھ سے دھوتا تو داغ اتار لیتا لیکن کم از کم آدھ گھنٹہ ایک کپڑے کو دھونے میں لگتا۔

جواب

صورت مسئولہ میں پاک اور ناپاک کپڑے اگر ایک ساتھ دھولیے تو پاک اور ناپاک کپڑے مل کر سب ناپاک ہوجائیں گے، اور ناپاک کپڑوں کو پاک کرنے کا  طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ پاک پانی سے دھویا جائے، اور ہر مرتبہ اچھی طرح نچوڑا جائے کہ پانی ٹپکنا بند ہوجائے، اگر پاک اور ناپاک کپڑے ایک ساتھ دھوئے جائیں  تو ان سب کو تین مرتبہ صاف پانی میں ڈال کر ہر مرتبہ نچوڑنا ضروری  ہے۔لہذا اگر سب کپڑوں کو تین مرتبہ پاک پانی سے اچھی طرح دھویا ہے اور ہر مرتبہ اچھی طرح نچوڑا گیا ہے تو سب کپڑے پاک ہو گئے ہیں اگرچہ کچھ کپڑوں پر داغ باقی ہوں، بعض داغ دھبے ایسے ہوتے ہیں جو کئی مرتبہ دھونے سے بھی نہیں مٹتے لیکن کپڑے پاک ہو جاتے ہیں۔ البتہ   اگر واشنگ مشین  میں کپڑے دھونے ہوں اور دھوئے جانے والے کپڑے  پاک اور ناپاک دونوں طرح کے ہوں تو   ان کے دھونے کے تین طریقے ہیں:

ایک یہ کہ جن کپڑوں کے بارے میں یقین ہے کہ یہ پاک ہیں انہیں پہلے دھولیا جائے، اور اس کے بعد ناپاک اور مشکوک کپڑوں کو دھولیا جائے۔ 

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو کپڑے ناپاک ہیں، ان میں ناپاک جگہ کو پہلے الگ سے تین مرتبہ اچھی طرح دھوکر اور نچوڑ کر ، یا ناپاک حصے کو جاری پانی یا کثیر پانی میں دھو کر پاک کرلیاجائے، پھر تمام پاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھولیا جائے، اس صورت میں دوبارہ واشنگ مشین میں تین مرتبہ دھونا یا بہت زیادہ پانی بہانا ضروری نہیں ہوگا۔

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ پاک اور ناپاک کپڑے سب ایک ساتھ دھولیے جائیں، اور کھنگالتے وقت تمام کپڑوں کو تین بار پانی میں ڈال کر نچوڑ لیا جائے یا تمام   کپڑوں کو واشنگ مشین میں اچھی طرح دھو لیا جائے، پھر اِسپینر مشین (یعنی مشین کا وہ حصہ جس میں کپڑا ڈال کر گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچوڑ جاتے ہیں، اور کچھ حد تک خشک بھی ہوجاتے ہیں) میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے، ہاتھ سے نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

"و" يطهر محل النجاسة "غير المرئية بغسلها ثلاثاً" وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، "والعصر كل مرة" تقديراً لغلبة.یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة".

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، ص: 161، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لا يقطر۔ ۔ ۔ وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار .... أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " وتجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق". 

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، 1، ص: 133، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101338

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں