بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پیسے لے کر امتحانی نمبرات کو زائد لکھنا


سوال

میں ایک ایڈیٹر ہوں، ایک مرتبہ مجھ سے ایک طالب علم نے رابطہ کیا اور کہا کہ میرے گھر والوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر آپ کے امتحان میں اچھے نمبر آئے تو ہم آپ کو ہدیہ دیں گے، اب میرے نمبر اچھے نہیں آئے ہیں اور میں گھر والوں سے ہدیہ وصول کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا اگرآپ میرے رزلٹ کارڈ میں میرےنمبر بڑھا دیں،تو میں آپ کو 1000 روپے دوں گا ،جس پرمیں نے نمبر بڑھا دیے اور اس طالب علم نے مجھے ایک ہزار روپے دے دیے ،اب سوال یہ ہے کہ کیا  میرے لیے ان پیسوں کو استعمال کرنا حلال ہے یا حرام ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا پیسے لے کر  امتحانی نمبرات کو زائد لکھنا جھوٹ ،دھوکا  دہی٬خیانت اور گناہ کے کام میں تعاون پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہے٬ لہذا ان کاموں کے بدلے اجرت لینا ،دینااور اس اجرت کا استعمال کرنا بھی  ناجائز اور حرام ہے،سائل پر لازم ہے کہ مذکورہ طالب علم کو ہزار روپے واپس کرے،چوں کہ  مذکورہ عمل کی وجہ سے سائل اور مذکورہ طالب علم دونوں گناہ گار ہوۓ ہیں،اس لیےدونو ں کو چاہیے کہ اپنے اس عمل پر اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے توبہ کریں اور  آئندہ کے لیے اس عمل سے سختی سے اجتناب کریں ،ہو سکے تو  رزلٹ  کارڈ بھی  درست کر دیں؛  تا کہ آئندہ غلط استعمال بھی نہ ہو۔

قرآن مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ."(المائدة:2)

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن )

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(المائدۃ : 296/3، ط: داراحیاء التراث العربي)

فیض القدیر میں ہے:

"‌من ‌غشنا فليس منا) أي ليس على منهاجنا لأن وصف المصطفى صلى الله عليه وآله وسلم وطريقته الزهد في الدنيا والرغبة فيها وعدم الشر والطمع الباعثين علي الغش (والمكر والخداع في النار) أي صاحبهما يستحق دخولها لأن الداعي إلى ذلك الحرص في الدنيا والشح عليها والرغبة فيها وذلك يجر إليها وأخذ الذهبي من الوعيد على ذلك أن الثلاثة من الكبائر فعدها منها."

(حرف الميم، 186/6، ط: المكتبة التجارية الكبري)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"والاستئجار على ‌المعاصي باطل فإن بعقد الإجارة يستحق تسليم المعقود عليه شرعا ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا."

(كتاب الإجارات، ‌‌باب الإجارة الفاسدة،38/16، ط: دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام لايحل له و يتصدق به بنية صاحبه."

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد، 99/5، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلا يكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا."

(كتاب الإجارة، 189/4،ط: دار الکتب العلمیة)

البحر الرائق میں ہے:

"وكذلك الإعانة على ‌المعاصي والفجور والحث عليها من جملة الكبائر."

كتاب الشهادات ،الباب الأول في تعريف الشهادة وركنها وسبب أدائها وحكمها وشرائطها وأقسامها، 451/3، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101712

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں