پیشاب کرنے کے بعد پھر بھی کچھ قطرے ٹراؤزر پر لگ جاتے ہیں۔ ایسے کپڑوں میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟
پیشاب کے بعد نجاست کی جگہ اس طرح صاف کرناکہ دل مطمئن ہو جائے کہ پیشاب اب نہیں نکلے گا، اس اطمینان حاصل کرنے کو استبراء کہتے ہیں، یہ واجب ہے۔ کیونکہ اگر استنجاء کے بعد پیشاب کا قطرہ آگیا تو کپڑے اور جسم کا وہ حصہ یقینا ناپاک ہوجائے گا جہاں قطرہ لگا ہے، اور اگر وضو کے بعد قطرہ آیا تو کپڑا اور جسم ناپاک ہونے کے ساتھ ساتھ وضو بھی ٹوٹ جائے گا، تاہم شریعت نے استبراء کا کوئی خاص طریقہ نہیں بتلایا ہے، کیونکہ اطمینان حاصل ہونے میں لوگوں کی عادتیں اور طبعیتیں مختلف ہوتی ہیں، کسی کو چند قدم چلنے سے، کسی کو دیر تک بیٹھے رہنے سے، کسی کو زمین پر پیر مارنے سے، اور کسی کو زور سے کھانسنے سے یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے، لہذا جس کو جس طریقے سے بھی اطمینان ہوجائے، اسے وہ طریقہ اپنانا چاہیے، اس سے استبراء ہوجائے گا۔
لہذا صورت مسئولہ میں استنجا کرتے وقت سائل کےلئےاستبرا کرنا( یعنی اچھی طرح اطمینان کرنا کہ اب قطرے نہیں آئیں گے) ضروری ہے، اس کے بعد بھی اگر قطرے آئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، اور دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا، اور ٹراؤزر وغیرہ پر جس جگہ قطرے لگے ہوں تو اگر وہ ایک درہم (ہاتھ کی ہتھیلی کے گڑھے= 5.94 مربع سینٹی میٹر) سے کم مقدار یا ایک درہم کے برابر کپڑے پر لگی ہو تو وہ معاف ہے،اگرچہ اس مقدارمیں بھی نجاست کو دھولینا چاہیے ، لیکن اس کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو نماز ہوجائے گی، لیکن مکروہ تنزیہی ہوگی۔ اوراگرایک درہم کی مقدار سے زائد ہوتو ایسے کپڑے میں نماز نہیں ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والاستبراء واجب حتى يستقر قلبه على انقطاع العود، كذا في الظهيرية. قال بعضهم: يستنجي بعدما يخطو خطوات، وقال بعضهم: يركض برجله على الأرض ويتنحنح، ويلف رجله اليمنى على اليسرى، وينزل من الصعود إلى الهبوط . والصحيح أن طباع الناس مختلفة فمتى وقع في قلبه أنه تم استفراغ ما في السبيل يستنجي. هكذا في شرح منية المصلي لابن أمير الحاج والمضمرات".
(الفتاوى الهندية: كتاب الطهارة،الباب السابع في النجاسة وأحكامها، الفصل الثالث في الاستنجاء (1/ 49)، ط. رشيديه)
الدر المختار میں ہے:
"(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل فيفرض".
(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الطهارة، باب الحيض (1/ 316)،ط. دار الفكر، سنة النشر (1386هـ) بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100815
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن