بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیسے ہوتے ہوئے ادھار کا معاملہ کرنا


سوال

 میں تاجر ہوں اور مختلف جگہوں سے سامان تجارت خرید تا ہوں ،اور خریدو فروخت میں ادھار اور نقد دونوں  طرح کامعاملہ ہوتا ہے ،اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میرے پاس پیسے  موجود ہوتے ہیں ،پھر بھی سامان تجارت ادھار خرید کر لا تاہوں، پھر سامان فروخت کرکے پیسے واپس کردیتا ہوں ،کیا اس طریقے سے کاروبار کرنا سنت کے خلاف ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سامان تجارت کی خریداری کے لیے نقد پیسے موجود ہوتے ہوئے ادھار پر خریداری کرنا ،اورپھرسامان تجارت فروخت کرنے کے بعد پیسوں کی ادائیگی کرناشرعاً جائز ہے ،بشرط یہ کہ ادھار کی ادائیگی کا وقت معلوم ہو،اور خریدنے کے بعد  سامان تجارت پر قبضہ کرکے پھر آگے فروخت کیا ہو،البتہ  ادائیگی کا وقت آنے کے بعد اس میں ٹال مٹول کرنا ناجائزاور ظلم ہے،اور ضرورت نہ ہونے کے باوجود قرض اور ادھار کا معاملہ کرنا بھی شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل) لإطلاق قوله تعالى {وأحل الله البيع} [البقرة: 275] وعنه عليه الصلاة والسلام «أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه» . ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها."

(كتاب البيوع، ج:6، ص:261، ط:دار الفكر)

تبين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

 "لايجوز بيع المنقول قبل القبض؛ لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

( کتاب البیوع، باب التولیة، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج:4، ص:80، ط:دار الكتاب الإسلامي) 

مسلم شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال (‌مطل ‌الغني ظلم، إذا أتبع أحدكم على ملء فليتبع)."

(کتاب المساقاۃ،باب تحریم مطل الغنی،ج:3،ص:1197،ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411101655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں