بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیسے لے کر ویزہ کے ڈاکومنٹس پورے کر کے دینا بہر حال رشوت ہے


سوال

 میرا اورسیز پروموٹر لائسنس ہے، ہمارا کام پاسپورٹ پر ویزہ پروسیس کرنا ہوتا ہے کہ پاسپورٹ بمعہ ضروری دستاویزات تیار کرکے ایجنٹ کے ذریعے متعلقہ ایمبیسی ارسال کردیتے ہیں، صورت حال یہ ہے کہ جو دستاویزات ہمارے ذمہ ہوتے ہیں وہ منسلک کردیتے ہیں، اور جو دستاویزات کسٹمر کے ذمہ ہوتے ہیں مثلا اوریجنل ڈ رایوینگ لایسنس یا کمپنی ایگریمنٹ وغیرہ وہ کسٹمر نے فراہم کرنے ہوتے ہیں، اگر یہ دستاویزات ساتھ نہ ہوں تو ایجنٹ کو دستاویزات کی کمی کے چارجز دے کرکام کرواسکتا ہے،  وہ ایجنٹ پیسے لے کر دستاویزات کی کمی کو پورا کرلیتا ہے، اور متعلقہ ایمبیسی سے کام کروالیتا ہے، اس طرح کسٹمر کو ویزہ کے روٹین سے زیادہ پیمنٹ کرنی پڑتی ہے، اور مارکیٹ میں اس طرح کا نظام چل رہا ہے،اگر ہم کسٹمر کو ان کاغذات کو لانے کےلیے زور دیں گے جو کہ اسی کی ذمہ داری ہے تو پھر ہمارے پاس گاہک ہی نہی آۓ گا، کیوں کہ مارکیٹ میں بیٹھے دوسرے پروموٹرز اُن کا یہ کام باخوشی کر لیتے ہیں، کسٹمر کی اپنی مجبوری یہ ہے اگر ڈ رایوینگ لائسنس یا کمپنی ایگریمنٹ فراہم کرے گا تو ڈ رایوینگ لائسنس بنانے میں دقت  ہوگی، اور وقت بھی لگے گا، اسی طرح کمپنی ایگریمنٹ بھی دیر طلب ہوگا، یہ سارا پروسیس صرف ویزہ لگانے کےلیے ہوتا ہے، ورنہ باہر ممالک میں الگ لائسنس لینا پڑتا ہے ،اسی طرح ایگریمنٹ بھی ایک وقتی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ بھی عمل میں نہیں لایا جاتا۔

اب سوال یہ ہے کہ دستاویزات کی کمی درج بالا طریقے پر پورا کرنا اور اس کا منافع شریعت کی رو سے کیسا ہے ؟

جواب

حکومت عوام کی مصلحت کی خاطرجواصول وقوانین بناتی ہے،اس کی پاسداری کرنالازم ہے، لہذامذکورہ صورت میں ویزہ کے حصول  کےلیےحکومت کاجوبھی طریقہ کاراورجوبھی قوانین ہے،اس کوچھوڑکر،کچھ پیسے لےکر،ایسی  دستاویزات بناکر دینا جس کا کسٹمر اہل نہ ہو  درست نہیں ہے،اوراس کا م کے لیے  لی گئی رقم رشوت کےزمرہ میں آکر،رشوت لینےاوردینےوالے،دونوں کےلیےباعثِ لعنت ہے،جس سےہرمسلمان کےلیے بچناضروری ہے۔

سنن ابو داؤد میں ہے:

"عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال:لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي."

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

(کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة،ج:3،ص:300، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

مرقات المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»): أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه."

 (کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:7،ص:295، ط:دارالکتب العلمیة)

 حاشيةابن عابدين میں ہے:

"وفي شرح الجواهر: تجب إطاعته فيما أباحه الشرع، وهو ما يعود نفعه على العامة."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:460، ط: سعيد)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"اگرآدمی کا جائز کام بغیر رشوت دیے نہ ہوتا ہو تو کیا حکم ہے

س:کیا فرماتے ہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ بعض اوقات ایک جائز کام رکا ہوا ہوتا ہے جو کہ محض دنیا کاری کا ہے۔یہ کام محض حکام بالا کو رشوت نہ دینے کی وجہ سے رکا ہوا ہے،کیا دین ودنیا کے ایسے جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے رشوت کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

ج:وصولی ثابت شدہ حق کے لیے جب بدون دیے مضرت کا خوف ہو گنجائش ہے لیکن لینے والے کےلیے ہر حال میں حرام ہے۔فقط واللہ اعلم"

(سود کا بیان،ج7،ص339،ط؛جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں