بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا فی زمانہ پینٹ شرٹ پہننے میں تشبہ بالکفار کی قباحت ختم ہوچکی ہے؟ / اسلامی لباس کے بنیادی اصول


سوال

 آج کل بعض علماء پینٹ شرٹ کے معاملے میں یہ نکتہ  بیان کر رہے ہیں کہ  چوں کہ اب مسلمانوں میں اس کا رواج عام ہو گیا ہے، اس لیے کفار سے مشابہت ختم ہوچکی ہے، لہٰذا اسے پہن سکتے ہیں ، تو کیا کوئی چیز اگر کفار سے مشابہت کی وجہ سے ممنوع ہو اور پھر مشابہت ختم ہوجائے تو اس چیز کا حکم بدل جاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے لباس کے بارے میں بڑی معتدل تعلیمات عطا فرمائی ہیں، چناں چہ شریعت نے کوئی خاص لباس مقرر کر کے اور اس کی ہیئت  بتا کر یہ نہیں کہا کہ ہر مسلمان  کے  لیے ایسا ایسا لباس پہننا ضروری ہے،  بلکہ اسلام نے لباس کے بارے میں کچھ بنیادی اصول بیان فرمادیے، اُن اصولوں کی رعایت رکھتے ہوئے جو لباس بھی استعمال کیا جائے گا وہ مسلمانوں کا لباس ہوگا، اور جو اس کے برعکس ہوگا وہ مسلمانوں کا لباس نہیں ہوگا۔ وہ بنیادی اصول یہ ہیں:

(1) لباس ایسا ہو جو انسان کے ستر کو چھپائے، لہٰذا اتنا چھوٹا لباس کہ جس سے ستر پوشی نہ ہو، یا ایسا باریک لباس کہ جس سے بدن کے اعضاء جھلکیں، یا اتنا  تنگ لباس کہ جس سے بدن کے اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہو، استعمال کرنا جائز نہیں۔

(2) لباس ایسا ہو جو انسان کے لیے  ستر پوشی کا باعث ہو اور ڈھنگ کا ہو، ایسا بے ڈھنگا لباس استعمال کرنا جو انسان کے وقار کے منافی ہو، مثلاً مردوں کے لیے انتہائی شوخ رنگ کا لباس، یا خالص سرخ رنگ کا لباس، یا ایسا لباس جس کی طرف بے اختیار لوگوں کی انگلیاں اٹھیں، یا مردوں کے لیے عورتوں کے مشابہ لباس اور عورتوں کے لیے مردوں کے مشابہ لباس استعمال کرنا درست نہیں ہے، لہٰذا شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اسراف اور ریا کاری سے بچتے ہوئے اپنی وسعت کے مطابق اچھا اور باوقار لباس استعمال کرنا چاہیے۔

(3)لباس ایسا نہ ہو کہ جس کو پہن کر انسان میں تکبر پیدا ہوجائے، لہٰذا مردوں کے لیے ریشمی لباس کا استعمال کرنا، یا شلوار، تہہ بند وغیرہ  کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا جائز نہیں ہے۔

(4) لباس ایسا ہو جس میں غیر مسلموں  کے ساتھ مشابہت نہ ہو، یعنی غیر مسلموں کے مخصوص لباس کو استعمال نہ کیا جائے، خواہ اس میں نیت اُن جیسا بننے کی ہو یا نہ ہو، بہر صورت غیر مسلموں کی نقالی ممنوع ہے۔

جیسا کہ کفایت المفتی میں مفتی اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب دہلویؒ فرماتے ہیں:

"شریعتِ مقدسہ میں لباس کی کوئی خاص وضع اور ہیئت متعین نہیں ہے، صرف چند چیزیں (مرد کے لیے ریشمیں لباس، زریں لباس، کسی کافر قوم کے مشابہ لباس، اسبالِ ازار) منع ہیں، اس کے بعد ہر لباس اور ہر وضع مباح ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، ٩/ ١٦٨، سوال نمبر: ١٩٤، ط: دارالاشاعت)

نیز اگر کوئی چیز تشبہ بالکفار کی وجہ سے ممنوع یا مکروہ ہو اور پھر اس چیز میں تشبہ ختم ہوجائے توتشبہ کی جہت سے تو  اس کی ممانعت یا کراہت میں تخفیف ہوجاتی ہے یہ بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن اگر  اس چیز میں تشبہ بالکفار کے علاوہ کسی اور جہت سے بھی ممانعت یا کراہت پائی جائے تو اس وجہ سے  اس چیز پر بدستور ممانعت یا کراہت کا حکم برقرار رہتا ہے،   پینٹ شرٹ کا استعمال موجودہ زمانے میں کفار کا شعار نہیں رہا یہ بات درست ہے، لیکن اس کا استعمال اب بھی فساق وفجار میں ہی عام ہے صلحاء میں نہیں، جب کہ لباس مسلمان کی شناخت ہے اور پینٹ شرٹ سے یہ شناخت مشکل سے ہی حاصل ہوتی ہے، لہٰذا یہ لباس مسلمانوں کے لیے پسندیدہ نہیں، اور اگر پینٹ اس قدر چست ہو کہ ستر پوشی کے تقاضے پورے نہ کرے، یا اتنی لمبی ہو کہ ٹخنہ چھپ جائے، تو پھر یہ صرف ناپسندیدہ ہی نہیں، بلکہ لباس کے شرعی اصولوں کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔ 

جیسا کہ فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"جہاں جو لباس کفار یا فساق کا شعار نہ ہو، بلکہ عام طور پر صلحاء اور فساق سب ہی استعمال کرتے ہوں، وہاں اس کو ممنوع نہیں کہا جائے گا، ہاں لباسِ مسنون کو اس کے مقابلہ میں احسن وافضل کہا جائے گا۔ اور جہاں جس قدر شعاریت ہوگی اسی قدر کراہت ہوگی۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب اللباس، ١٩٢٨٦، ط: فاروقیہ)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

"ہر وہ لباس جو کفار وفساق کا مخصوص شعار ہو، اس سے بچنا چاہیے۔ کوٹ، پتلون ہندوستان میں پہننا حرام تو نہیں رہا البتہ صلحاء کا شعار نہیں، اس سے بچنا چاہیے ۔"

(فتاویٰ محمودیہ،  کتاب الحظر والاباحۃ، باب اللباس، ١٩/ ٢٥٩، ط: ادارہ  الفاروق)

کفایت المفتی میں ہے:

"(سوال) انگریزی بال، ہیٹ، کوٹ پتلون یہ چیزیں تشبہ بالقوم میں داخل ہیں یا نہیں؟ نیز تشبہ صرف ہیئتِ مجموعی میں ہوگا یا جز سے بھی ہوجائے گا؟

(جواب ١٩٦) ان میں سے ہر چیز  تشبہ کے لیے کافی ہے، مگر تشبہ کا حکم اسی صورت میں ہوتا ہے کہ دیکھنے والا اسے دیکھ کر اس شبہ میں پڑ جائے کہ یہ شخص اس قوم کا فرد ہے، مثلاً ہیٹ لگانے والے کو کرسٹن سمجھا جائے۔

تو جو چیزیں کہ غیر لوگوں میں بھی عام طور پر استعمال ہونے لگی ہوں، مثلاً بوٹ، پتلون کوٹ تو ان میں تشبہ کی جہت کمزور اور کراہت خفیف رہ جاتی ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، ٩/ ١٦٤، ط: دارالاشاعت)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"لندن وغیرہ میں کفار کے لباس کا حکم

سوال(٢٦٤٨): اس ملک میں اُن لوگوں کا لباس اور وضع قطع اختیار کرنا کس قسم کا گناہ ہے؟ اگر آدمی شوق سے نہیں، بلکہ اس ضرورت سے اُن کا ظاہری لباس اور وضع قطع اختیار کرے کہ عوام کی نظر میں ایک انوکھا اور برا نہ معلوم ہو، اور لوگوں کو اس کی طرف انگشت نمائی نہ ہو اور شہر کے بچے اس پر ہنسے نہیں، تو کیا اس گناہ کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، کس حد تک اجازت ہے؟

جواب: میں اس باب میں یہ سمجھے ہوئے ہوں کہ جس جگہ یہ لباس قومی ہے، جیسے ہندوستان میں، وہاں اس کا پہننا "من تشبہ بقوم" میں داخل ہے، اور جہاں ملکی ہے، جس کی علامت یہ ہے کہ وہاں سب قومیں اور سب مذاہب کے لوگ ایک ہی لباس پہنتے ہیں، وہاں پہننا کچھ حرج نہیں۔ اب اس معیار پر آپ وہاں کی حالت خود ملاحظہ فرمائیں۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب تشبہ بالکفار، ٩٤٢١، ط: مکتبہ رشیدیہ)

قرآن مجید میں ہے:

"يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ"

[الأعراف:٢٦]

اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے:

"يمتن تعالى على عباده بما جعل لهم من ‌اللباس ‌والريش، فاللباس ستر العورات وهي السوآت، والرياش والريش ما يتجمل به ظاهرا، فالأول من الضروريات والريش من التكملات والزيادات."

(سورة الأعراف، ٣/ ٣٥٩، ط: دار الكتب العلمية)

 صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌معاذ بن فضالة : حدثنا ‌هشام، عن ‌يحيى، عن ‌عكرمة، عن ‌ابن عباس قال: لعن النبي صلى الله عليه وسلم المخنثين من الرجال، ‌والمترجلات من النساء، وقال: أخرجوهم من بيوتكم، قال: فأخرج النبي صلى الله عليه وسلم فلانا، وأخرج عمر فلانا."

(كتاب اللباس، ‌‌باب إخراج المتشبهين بالنساء من البيوت، ٧/ ١٥٩، ط: دار طوق النجاة)

شرح صحیح البخاری لابن بطال میں اس حدیث کی شرح میں ہے:

"فيه: ابن عباس، لعن النبى، عليه السلام، المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال. قال الطبرى: فيه من الفقه أنه لايجوز للرجال التشبه بالنساء في اللباس و الزينة التي هي للنساء خاصة، و لايجوز للنساء التشبه بالرجال فيما كان ذلك للرجال خاصة. فمما يحرم على الرجال لبسه مما هو من لباس النساء: البراقع و القالائد و المخانق و الأسورة و الخلاخل، و مما لايحل له التشبه بهنّ من الأفعال التي هنّ بها مخصوصات فانخناث في الأجسام، و التأنيث في الكلام. و مما يحرم على المرأة لبسه مما هو من لباس الرجال: النعال و الرقاق التي هي نعال الحد و المشي بها في محافل الرجال، و الأردية و الطيالسة على نحو لبس الرجال لها في محافل الرجال و شبه ذلك من لباس الرجال، و لايحلّ لها التشبه بالرجال من الأفعال في إعطائها نفسها مما أمرت بلبسه من القلائد و القرط و الخلاخل و السورة، و نحو ذلك مما ليس للرجل لبسه، و ترك تغيير اليدي و الأرجل من الخضاب الذي أمرن بتغييرها به"

(كتاب اللباس، ‌‌باب إخراج المتشبهين بالنساء من البيوت، ٩/ ١٤٠، ط: مكتبة الرشد)

اسی طرح صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌أحمد بن يونس قال: حدثنا ‌إبراهيم بن سعد قال: حدثنا ‌ابن شهاب، عن ‌عروة، عن ‌عائشة : «أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في ‌خميصة ‌لها ‌أعلام، فنظر إلى أعلامها نظرة، فلما انصرف قال: اذهبوا بخميصتي هذه إلى أبي جهم، وأتوني بأنبجانية أبي جهم؛ فإنها ألهتني آنفا عن صلاتي»."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب: إذا صلى في ثوب له أعلام ونظر إلى علمها، ١/ ٨٤، ط: دار طوق النجاة)

اس کی شرح  میں  علامہ عینی  عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں:

"ذكر ما يستنبط منه من الأحكام فيه: ‌جواز ‌لبس ‌الثوب ‌المعلم وجواز الصلاة فيه ... وفيه: كراهية الأعلام التي يتعاطاه الناس على أردانهم."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب: إذا صلى في ثوب له أعلام ونظر إلى علمها، ٤/ ٩٤، ط: دار الفكر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(‌من ‌تشبه ‌بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير، فإن الخلق الصوري لا يتصور فيه التشبه، والخلق المعنوي لا يقال فيه التشبه، بل هو التخلق، هذا وقد حكى حكاية غريبة ولطيفة عجيبة، وهي أنه لما أغرق الله - سبحانه - فرعون وآله لم يغرق مسخرته الذي كان يحاكي سيدنا موسى - عليه الصلاة والسلام - في لبسه وكلامه ومقالاته، فيضحك فرعون وقومه من حركاته وسكناته ; فتضرع موسى إلى ربه: يا رب! هذا كان يؤذي أكثر من بقية آل فرعون، فقال الرب تعالى: ما أغرقناه ; فإنه كان لابسا مثل لباسك، والحبيب لا يعذب من كان على صورة الحبيب، فانظر من كان متشبها بأهل الحق على قصد الباطل حصل له نجاة صورية، وربما أدت إلى النجاة المعنوية، فكيف بمن يتشبه بأنبيائه وأوليائه على قصد التشرف والتعظيم، وغرض المشابهة الصورية على وجه التكريم؟"

(كتاب اللباس، ٧٧٨٢، رقم الحديث: ٤٣٤٧، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لايصف ما تحته) بأن لايرى منه لون البشرة احترازاً عن الرقيق ونحو الزجاج (قوله: ولايضر التصاقه) أي بالألية مثلاً، (وقوله: وتشكله) من عطف المسبب على السبب. وعبارة شرح المنية: أما لو كان غليظًا لايرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو وتشكل بشكله فصار شكل العضو مرئياً فينبغي أن لايمنع جواز الصلاة؛ لحصول الستر. اهـ. قال ط: وانظر هل يحرم النظر إلى ذلك المتشكل مطلقاً أو حيث وجدت الشهوة؟ اهـ. قلت: سنتكلم على ذلك في كتاب الحظر، والذي يظهر من كلامهم هناك هو الأول."

)كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ١٤١٠، ط: سعيد)

وقال في الحظر والإباحة:

"وفي التبيين قالوا: ولا بأس بالتأمل في جسدها وعليها ثياب ما لم يكن ثوب يبين حجمها، فلا ينظر إليه حينئذ لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من تأمل خلف امرأة ورأى ثيابها حتى تبين له حجم عظامها لم يرح رائحة الجنة» ولأنه متى لم يصف ثيابها ما تحتها من جسدها يكون ناظرا إلى ثيابها وقامتها دون أعضائها فصار كما إذا نظر إلى خيمة هي فيها ومتى كان يصف يكون ناظرا إلى أعضائها اهـ. أقول: مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة ولو كثيفا لا ترى البشرة منه، قال في المغرب يقال مسست الحبلى، فوجدت حجم الصبي في بطنها وأحجم الثدي على نحر الجارية إذا نهز، وحقيقته صار له حجم أي نتو وارتفاع ومنه قوله حتى يتبين حجم عظامها اهـ وعلى هذا ‌لا ‌يحل ‌النظر إلى عورة غيره فوق ثوب ملتزق بها يصف حجمها فيحمل ما مر على ما إذا لم يصف حجمها فليتأمل."

)کتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ٦٣٦٦، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں