بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلے خریدی ہوئی چیز کی موجودہ قیمت کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے


سوال

میری والدہ نے میرے تایا ابو سے 1995 میں پانچ لاکھ روپے  کا ایک گھر خریدا،  ساڑھے 3 لاکھ ادا کر دیے تھے ، اور ڈیڑھ لاکھ باقی تھا،گھر  انھوں نے ہمارے قبضے میں دیدیا ، البتہ نام نہیں کیا تھا ، ہم نے اس میں رہائش اختیار کر لی ، قیمت ادا کرنے کی کوئی مدت طے نہیں تھی ، تا یا سعودیہ میں رہتے تھے  کبھی آتے تھے،ہمارے والد کا 2013 میں سعودیہ میں انتقال ہوا، میری والدہ نے تایا سے کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے ،آپ  میرے شوہر کی سعودیہ میں جو گاڑی ہے وہ لے لیں  اور ڈیڑھ لاکھ کی بھرپائی کر لیں ، انہوں نے اس وقت منع کیا اور کہا گاڑی بیچ کر   قیمت آپ کو بھیجوں گا ، اس گاڑی کا اب تک کوئی پتہ نہیں اور نہ ہی اس کی رقم ہم کو بھیجی گئی ، اب 2023 میں وہ کہہ رہے ہیں کہ تم گھر کی موجودہ قیمت کا 40 فیصد ادا کرو، پھر میں گھر تمہارے نام کروں گا ، حالانکہ ڈیڑھ لاکھ باقی  تھا ،  پوچھنا یہ ہے کہ اب  شرعاً   ہم کو موجودہ قیمت کا  40 فیصد،  یا  ڈیڑھ لاکھ ادا کرنا ہے ؟

جواب

خرید و فروخت میں جو  قیمت  معاملہ کرتے   وقت طے ہوتی  ہے  خریدار  کے ذمہ وہی  قیمت  ادا کرنا لازم ہوتی  ہے،موجودہ قیمت کے اعتبار سے ادائیگی لازم نہیں ہوتی ،  خواہ اس پر کتنے ہی ایام اور سال گزر جائیں، اس لئے صورت مسئولہ میں  جب مکان 5 لاکھ کا خریدا اور ساڑھے 3 لاکھ ادا کر دیے تو اب  سائل کی ولدہ کے ذمہ بقیہ ڈیڑھ لاکھ روپے واجب الاداء  ہیں ، مالک مکان اس سے زیادہ کے  مطالبے کا مجاز نہیں  ہے، مالک مکان کی طرف سے اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا ناجائز اور حرام ہے ۔اگرتایا نے اپنے مرحوم بھائی کی گاڑی بیچی ہے تو اس کی رقم کو ڈیڑھ لاکھ میں سے منہا کیا جائے گااور اگرگاڑی ان کے پاس ہے تو مرحوم کے ورثاء کو حوالے کرنا لازم ہے۔

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل،ج:4،ص:320، ط: سعید)

المحیط البرھانی میں ہے:

"‌الديون ‌تقضى بأمثالها، فيصير المقبوض مضموناً على القابض ديناً للدافع."

( كتاب الدعوي ،  ‌‌الفصل الثاني في بيان صحة الدعاوى وبيان ما يسمع منها وما لا يسمع،  ج : 9،  ص : 8،  ط : دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408102403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں