بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلے شادی کی جائے یا گھر بنایا جائے؟


سوال

 میں کراچی کا رہائشی ہوں، اور اپنے والدین کے ساتھ کرائے کے مکان میں مقیم ہوں، اللّٰہ کے فضل سے میرا نکاح ہوچکا ہے، میرا نکاح ہوئے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے، اور میں اب چاہتا ہوں کہ رخصتی کرواکر دلہن کو گھر لے آؤں، اس  میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ میرے اپنے گھر والے اور سسرال والے دونوں کہہ رہے ہیں کہ پہلے اپنا گھر بنالیا جائے اور بعد میں پھر شادی ہو، چونکہ گھر بنانے کے اس وقت کوئی واضح اسباب دکھائی نہیں دے رہے لیکن اللّٰہ کی مدد و نصرت سے وہ بھی جلد بن جائے گا، اگلے سال تک والد صاحب کو حکومت کی طرف سے ریٹائرمنٹ پر کچھ سرکاری وظیفہ بھی ملے گا جس میں سے ہمارا گھر خریدنے کا ارادہ ہے آپ شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں کہ ان حالات میں شادی پہلے کر لینی چاہیے یا گھر پہلے بنانا چاہیے ؟

جواب

1۔ نان نفقہ اور رہائش بیوی کا بنیادی حق ہے، رہائش سے مراد یہ کہ ایسا الگ کمرہ جہاں شوہر کے گھروالوں کا دخل نہ ہو ، اور بیوی  اطمینان سے اس میں خود بھی رہ سکے اور اپنا سامان وغیرہ بھی محفوظ کرسکے، اگر آپ اس پر قادر ہیں یا آپ کے والد کی طرف سے آپ کی زوجہ کو ایسی رہائش فراہم کی جاسکتی ہےاگرچہ وہ آپ کی یا ان کی ذاتی نہ ہو تو شرعاً آپ کے لیے رخصتی کروا لینا مسنون ہے، اور اگر گناہ میں پڑ جانے کا قوی اندیشہ ہو تو واجب ہے۔

2۔  نکاح کے معاملات کو طے کرنے میں اپنے والدین اور لڑکی کے والدین کی رضا کو ملحوظ رکھنا خیر و برکت اور رشتے کی مظبوطی کا ذریعہ ہے، اگر  تاخیر کے مشورے میں والدین  کی رائے معقول ہے تو ان کی بات مان لینی چاہیے،اور اگر  آپ کو لگے کہ بلاوجہ تاخیر ہورہی ہے تو نرمی اور محبت سے اپنے والدین کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔

3۔ اپنےمعاملات  اللہ تعالی سے حل کروائیں ،  دعاؤوں کا خوب اہتمام کریں، روزانہ دو نفل صلاۃ الحاجۃ  پڑھ کر  اپنے  خاص مقصد کی کامیابی  اور ہر طر ح کی خیر و بھلائی کے لیے اللہ تعالی سے دعا مانگیں،  اللہ تعالی ضرور کوئی سبیل  پیدا فرمادیں گے۔

"صلاۃ الحاجۃ " کا طریقہ :

 حدیث شریف  میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے کوئی خاص حاجت یا اس کے کسی بندے سے کوئی خاص کام پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعت (اپنی حاجت کی نیت سے) نمازِ حاجت پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، اور رسول اللہﷺ پرصلاۃ وسلام بھیجے (یعنی درود شریف پڑھے) اس کے بعد یہ دعا کرے:

' لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، أَسْأَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْعِصْمَةَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ، وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَّالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِيْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَه وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَه وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ.'

سنن ترمذی میں ہے:

'عن عبد الله بن أبي أوفى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كانت له إلى الله حاجة، أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ وليحسن الوضوء، ثم ليصل ركعتين، ثم ليثن على الله، وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليقل: لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، أسألك موجبات رحمتك، وعزائم مغفرتك، والغنيمة من كل بر، والسلامة من كل إثم، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته، ولا هما إلا فرجته، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين.'

(أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاة الحاجة، رقم الحدیث:479، ج:1، ص:603، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100579

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں