بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پگڑی کی دکان خالی کرانے کی صورت میں اس کے عوض کا حکم


سوال

ہماری بلڈنگ میں کچھ دکانیں ہیں جو پگڑی پر دی ہوئی ہیں۔ تمام دکانوں کا کرایہ بڑھایا گیا۔ وہ خوش اسلوبی سے ادا کرتے رہے، لیکن ایک دکان دار نے کرایہ بڑھانے سے انکار کردیا، کئي مرتبہ اس سے کرایہ منگوایا لیکن اس نے نہیں دیا، جس کی وجہ سے میرے والد صاحب نے ان پر مقدمہ دائر کردیا۔ عدالت نے فیصلہ ہمارے حق میں کردیا اور اس طرح وہ دکان ہمارے ہاتھ آگئی، لیکن اس وقت تک والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد تمام معاملات میرے ہاتھ میں آگئے، میں نے مقدمہ جیتنے کے باوجود کئی مرتبہ لوگوں کو ان کے پاس بھیجا تا کہ مصالحت کی کوئی صورت نکل آئے۔ انہوں نے ہماری کوئی بات نہ سنی، بالآخر مجھے ان سے دکان خالی کرانی پڑی، جب دکان میرے قبضے میں آگئی تو کچھ لوگ مصالحت کرانے کے لیے درمیان میں آگئے اور انہوں نے یہ تجویز رکھی کہ دکان فروخت کر کے آدی رقم ان کو دے دیں اور آدھی آپ رکھ لیں یا پھر کچھ مناسب رقم ان سے لے کر دکان ان کو واپس دے دیں لیکن یہ اس وقت بھی کسی بات پر راضی نہ ہوئے، حالانکہ میں نے ان لوگوں کی دونوں تجویزیں قبول کرلیں تا کہ بات ختم ہوجائے۔ پھر دکان فروخت کر کے میں 50 فیصد کے بدلے 60 فیصد رقم ان کو بجھوائی، انہوں وہ بقیہ رقم بھی  واپس کردی اور کہا کہ ہمیں 80 فیصد رقم چاہیے، دینی ہے تو دیں ورنہ ہم آخرت میں لیں گے۔ دراصل میں اس بلڈنگ کا اکیلا وارث نہیں ہوں بلکہ کئی حصہ دار ہیں، جن میں اکثر لوگ غریب ہیں، وہ چاہتے ہیں ہمیں اس دکان کی رقم میں سے ہمارا حصہ دیا جائے۔ اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے شرعی طور پر کیا اس دکاندار کا کیا حق ہے تا کہ میں وہ ادا کرنے کے بعد باقی لوگوں کو ان کا حصہ دے سکوں۔ 

جواب

واضح رہے کہ مروجہ پگڑی کا  معاملہ شرعاً درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان یا دکان  بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتے ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں پگڑی کا معاملہ ختم ہونے کی صورت میں  دکان کے مالک کے ذمے پگڑی کی اصل رقم واپس کرنا لازم ہے، اور حاصل شدہ  رقم تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی، البتہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پگڑی پر لینے والے شخص نے اس دکان  میں کوئی تعمیراتی کام وغیرہ کرایا ہے یا نہیں ؟ اگر اس نے دکان  میں کوئی تعمیراتی کام مثلاً:  لکڑی، ٹائلز ، فرنیچر وغیرہ  کا اضافہ نہیں کیا اور رنگ و روغن بھی نہیں کرایاتو  پگڑی کی جتنی رقم اس نے دی تھی وہی واپس کی جائے ، اور اگر اس شخص نے پگڑی کی دکان میں کوئی کام کروایا تھا ، مثلاً:  لکڑی، ٹائلز یا دیگر تعمیراتی کام، تو ایسی صورت میں وہ دکان کے  اصل مالک سے باہمی رضامندی سے ان کاموں کی  کوئی رقم  متعین کرکے اصل رقم کے ساتھ مزید ان کاموں کی رقم بھی لے سکے گا، نیز جتنے عرصے کا کرایہ نہیں دیا تھا وہ بھی منہا کیا جائے گا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه : لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح عنها".

(کتاب البیوع،ص:518، ج:4، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

 "ولو أجرها المستأجر بأكثر من الأجرة الأولى فإن كانت الثانية من خلاف جنس الأولى طابت له الزيادة، وإن كانت من جنس الأولى لا تطيب له حتى يزيد في الدار زيادة من بناء أو حفر أو تطيين أو تجصيص".

( کتاب الإجارۃ، فصل فی حکم الإجارۃ، ص:206، ج:4، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307101627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں