بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پگڑی کی شرعی حیثیت کا حکم


سوال

پگڑی سسٹم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز اگر  پگڑی پر دکان اور مکان  دے دیا تو اب خالی کروانے کے حوالے سے وضاحت فرما دیں کہ کرایہ دار نے جتنی رقم جمع کروائی تھی وہی رقم واپس کی جائے گی یا پھر ویلیو کے حساب سے رقم دی جائے گی ؟  رسید بدلتے وقت مالک مکان جو رقم لیتا ہے وہ درست ہے یا نہیں ؟

جواب

1) واضح رہے کہ مروجہ پگڑی کا  معاملہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان یا دکان  بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتے ہیں  ،لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے۔

پگڑی کا معاملہ ختم کرنے کی صورت میں  جب پگڑی پر لینے والا شخص  مکان اس کے مالک کو واپس کرے گا تو  مالک کے ذمے پگڑی کے  اُتنے ہی  پیسے واپس کرنا لازم ہوں گے جتنے کرائے دار نے مکان لیتے وقت ادا کیے تھے ، البتہ ساتھ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ اس نے اس مکان  میں اپنی ذاتی رقم سے کوئی تعمیراتی کام وغیرہ کرایا ہے یا نہیں ؟ اگر اس نے مکان  میں کوئی تعمیراتی کام مثلاً:  لکڑی، ٹائلز ، فرنیچر وغیرہ  کا اضافہ نہیں کیا ہے  تو  پگڑی کی جتنی رقم اس نے دی ہے وہ اس کو واپس دی جائے گی اور  مکان مالکِ مکان کا ہوگا، اور اگر اس شخص نے اپنی ذاتی رقم سے اس پگڑی کے مکان میں کوئی کام کروایا تھا ، مثلاً:  لکڑی، ٹائلز یا دیگر تعمیراتی کام، تو ایسی صورت میں وہ مکان کےاصل مالک سے باہمی رضامندی سے ان کاموں کی  کوئی رقم  متعین کرکے خرید و فروخت کا معاملہ کرسکتا ہے۔

2) صورتِ  مسئولہ میں  فروخت کرتے وقت  رسید بدلنے کی مد میں مالک مکان جو رقم لیتا ہے وہ لینا بھی  جائز نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتا ہے، لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے،  اگر یہ معاملہ کرلیا ہو تو  جتنا جلدی ہوسکے ختم کرکے اونر شپ   کا معاملہ کرلینا چاہیے  یا طویل مدت کے لیے کرایہ داری کا معاملہ کرلینا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه : لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف. (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح عنها"

 ( کتاب البیوع،ج:4،ص:518،  ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں