بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پگڑی کے مکان کے لین دین اور اُس کی میراث کا حکم، تقسیمِ میراث، ورثاء کو میراث میں سے حق نہ دینا


سوال

میری والدہ کا انتقال ہوچکا ہے ، ان کے والدین اور شوہر کا پہلے انتقال ہو چکا تھا ،والدہ کے ورثاء میں ہم دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں،والدہ کا ایک پگڑی کا مکان تھا جو کہ بھائی نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا اور ابھی کچھ ماہ پہلے اس نے اسے آگے 30 لاکھ میں فروخت کر دیا ہے،جس میں سے چالیس ہزار لینڈ لارڈ نے کمیشن رکھا ہے،یہ مکان والدہ کے پاس 27 سال رہا، اس میں میں نے اپنے پیسوں ( تقریباً دو لاکھ روپے جو میری ساس نے گفٹ کیے تھے) سے لوہے کے دروازے اور گرل وغیرہ لگوائی تھی، یہ خرچہ کرتے وقت میری ان پیسوں کو واپس لینے کی کوئی نیت نہیں تھی، اب بھائی اس رقم (انتیس لاکھ ساٹھ ہزار) میں سے ہم بہن بھائیوں کو حصہ دینے کو تیار نہیں ہے، برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرمائیں کہ مجھے میرے دولاکھ روپے واپس ملیں گے یا نہیں اور  ہمارا اس رقم (انتیس لاکھ ساٹھ ہزار)  میں کتنا حصہ بنتا ہے؟اور بھائی کا ہمیں وراثت میں حصہ نہ دینا کیسا ہے؟

نوٹ:میرے بھائی نے والدہ کے انتقال کے بعد مکان پر قبضہ کرتے وقت مجھے ایک لاکھ روپے دے کر کہا کہ آپ کرائے کے مکان میں رہنے چلے جاؤ، تو میں بھائی سے ایک لاکھ روپے لے کر کرائے کے مکان میں رہنے لگا اور بھائی اسی والدہ والے مکان میں رہتا رہا۔ ایک لاکھ روپے بھائی نے مجھے بطور قرض نہیں دیے تھے، بلکہ بطور ہبہ/گفٹ دیے تھے،اس بات کا بھائی بھی اقرار کرتے ہیں۔

وضاحت: والدہ نے 28 سال پہلے پگڑی پر مکان لیتے وقت پگڑی کی مد میں سوا تین لاکھ (325،000) روپے دیے تھے۔

جواب

جواب سے پہلے بطور تمہید پگڑی پر مکان وغیرہ کے لین دین کی شرعی حیثیت اور حکم کا علم ہونا ضروری ہے،چونکہ  مروجہ پگڑی کا  معاملہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتا ہے،لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے، ایسے معاملہ کو جتنا جلدی ہوسکے ختم کرکے اونر شپ   کا معاملہ کرلینا چاہیے  یا طویل مدت کے لیے کرایہ داری کا معاملہ کرلینا چاہیے۔

پگڑی پر لیا جانے والا مکان تو مالک کی ملکیت میں ہوتا ہے، البتہ اس پگڑی کی مد میں دی جانے والی رقم دینے والے شخص ہی کی ملکیت ہوتی ہے، جب پگڑی پر لینے والا شخص مکان اس کے مالک کو واپس کرے گا تو اس کو وہ رقم واپس مل جائے گی،البتہ  اگر  اس شخص نے خود   پگڑی کے فلیٹ میں کوئی کام کروایا ہو  ، مثلاً لکڑی، ٹائلز یا   پنکھا ، بتی وغیرہ لگائے، یا  دیگر تعمیراتی کام کروایا  تو ایسی صورت  میں  وہ شخص پگڑی کی مد میں دی گئی اصل رقم وصول کرنے کے علاوہ مکان میں کرائے گئے کام کی مد میں اضافی رقم بھی مالک سے یا دوسرے کرایہ دار سے وصول کرسکتا ہے، اور اگر کوئی کام نہیں کروایا  تھا  تو اس فلیٹ کا قبضہ ختم  کرنے کے لیے اضافی رقم لینا یا کسی اور سے  زائد رقم لے کر پگڑی پر دینا درست نہیں ہوگا۔

جس صورت میں پگڑی پر لینے والے شخص نے پگڑی کے مکان میں کچھ کام وغیرہ کروایا جس کی تفصیل پیچھے گزری  تو اس صورت میں اگر اس کا انتقال ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر اس کے ورثاء اس پگڑی کے مکان کو مالک کو واپس کر کے  یا کسی دوسرےشخص  کو کرایہ داری کا معاہدہ منتقل کر کے   باہمی رضامندی سے جو پگڑی کی اصل رقم اور  مکان میں کرائے گئے کام کی مد میں اضافی رقم  وصول کریں گے اس میں تمام ورثاء اپنی شرعی حق کے موافق شریک ہوں گے، اور اگر کوئی کام نہیں کروایا تو تمام ورثاء صرف پگڑی پر دی جانے والی اصل رقم میں حق دار ہوں گے، باقی پگڑی کے نفس مکان میں میراث جاری نہیں ہوگی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سوال میں ذکر کردہ معلومات کی رُو سے پگڑی کے مکان میں دروازے اور گرِل وغیرہ لگوائی گئی تھی اس لیے اس پگڑی کے مکان کو آگے دوسرے کرایہ دار کو دیتے ہوئے پگڑی کی اصل رقم (سوا تین لاکھ) کے علاوہ مکان میں کرائے گئے کام کی مد میں اضافی رقم (چھبّیس لاکھ پچھتّر ہزار 2675،000 روپے) وصول کرنا جائز تھا، البتہ پگڑی کے معاملے میں اصل مالک (لینڈ لارڈ) کا ہر مرتبہ کی خرید و فروخت میں رسید کی تبدیلی پر کمیشن وغیرہ کے نام سے معاوضہ لینا جائز نہیں ہے، اس لیے لینڈ لارڈ کا چالیس ہزار روپے لینا جائز نہیں تھا۔

بہرحال اگر پگڑی کی اصل رقم اور مکان میں کرائے گئے کام کی مد میں وصول کی گئی ہو تو اضافی رقم کے مجموعے ( تیس لاکھ روپے) میں سے جو انتیس لاکھ ساٹھ ہزار (2،960،000) روپے بچ گئے وہ آپ کی والدہ کا ترکہ ہے، آپ نے والدہ کی زندگی میں والدہ کے گھر میں قرض کی صراحت کیے بغیر خود سے دروازے اور گرِل لگوانے کے لیے جو دو لاکھ روپے خرچ کیے تھے وہ آپ کی طرف سے والدہ کے حق میں بمنزلہ تبرّع اور احسان کےتھے،اس لیے اب آپ کو والدہ کے ترکے میں سے ان پیسوں کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے،لہٰذا مکمل رقم تیس لاکھ میں سے جو انتیس لاکھ ساٹھ ہزار (2،960،000) روپے آپ کی والدہ مرحومہ کے تمام شرعی ورثاء میں میراث کے ضابطہ شرعیہ کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے، آپ کے بھائی کا والدہ کے ترکے تیس لاکھ میں سے جو انتیس لاکھ ساٹھ ہزار (2،960،000) روپے پر خود قبضہ کرنا اور دیگر ورثاء کو اس میں سے حق و حصہ نہ دینا  ناجائز اور سخت گناہ ہے،لہٰذا آپ کے بھائی  کو چاہیے کہ والدہ مرحومہ کے ترکے میں سےان کے تمام شرعی ورثاء  کو حصہ دے دیں، کیوں کہ اگر اس دنیا میں نہیں دیں گے تو آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ،  حدیثِ مبارک میں اس پر  بڑی وعیدیں آئی ہیں ۔

حدیث مبارک میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

ترجمہ:"حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی"۔

(مشكاة المصابيح، باب الغصب والعاریۃ1/254ط: قدیمی)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے :

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا"۔

(باب الوصایا، الفصل الثالث1/266ط : قدیمی)

آپ کی والدہ مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ  سب سے پہلے مرحومہ کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحومہ کے   حقوقِ  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو  تو کل ترکہ سے  قرضہ ادا کرنے کے بعد ، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرکے  باقی کل  منقولہ و غیر منقولہ ترکہ  کو 8 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے دو، دو حصے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو اور ایک، ایک حصہ مرحومہ کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:8

بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
221111

انتیس لاکھ ساٹھ ہزار (2،960،000) روپے میں سے سات لاکھ چالیس ہزار (740،000) روپے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو اورتین لاکھ ستّر ہزار (370،000) روپے مرحومہ کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لاتحتمل التمليك ولايجوز الصلح عنها". 

(کتاب البیوع،4/ 518،ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

" ولو أجرها المستأجر بأكثر من الأجرة الأولى فإن كانت الثانية من خلاف جنس الأولى طابت له الزيادة، وإن كانت من جنس الأولى لاتطيب له حتى يزيد في الدار زيادة من بناء أو حفر أو تطيين أو تجصيص". 

(کتاب الاجارۃ، فصل فی حکم الاجارۃ،4/ 206، ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخنا وتقدم في الغصب.

(قوله عمر دار زوجته إلخ) على هذا التفصيل عمارة كرمها وسائر أملاكها جامع الفصولين، وفيه عن العدة كل من بنى في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنى لرب الأرض بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ وفيه بنى المتولي في عرصة الوقف إن من مال الوقف فللوقف، وكذا لو من مال نفسه لكن للوقف، ولو لنفسه من ماله، فإن أشهد فله وإلا فللوقف، بخلاف أجنبي بنى في ملك غيره".

(مسائل شتى،6/ 747، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں