بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پگڑی کا مکان کس کی ملکیت میں ہوگا؟


سوال

 میرے والدین حیات ہیں، میرے والد کی ملکیت میں دو گھر،ایک دکان، ایک گودام اور 26 لاکھ نقدہے، ان کی کل قیمت تقریبا11600000 روپے بنتی ہے، والد صاحب نے تین سال پہلے تمام اولاد کے درمیان اپنی جائیداد برابر تقسیم کردی تھي اور میرے حصے میں جو گھر اور دکان آئی تھی وہ پگڑی کی تھی اور کچھ عرصے پہلے میرے علم میں یہ بات آئی  کہ پگڑی کے مکان کی تقسیم نہیں ہوگی، توکیا یہ بات درست ہے؟

اور کیا والد صاحب نے جو تقسیم کی ہے شرعی اعتبار سے درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتا ہے،لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے، ایسے معاملہ کو جتنا جلدی ہوسکے ختم کرلینا چاہیے اسی طرح ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک اور  خود مختار ہے،  وہ جو چاہے اس میں جائز تصرف کرسکتاہے،   جب تک وہ شخص  زندہ  ہو تو اس کی ملکیت میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، تاہم  اگر وہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کو اپنے شرعی ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا چاہتاہو تو تقسیم کرنا شرعا جائز ہے، البتہ شرط یہ ہے ان سب کے درمیان برابر تقسیم کرے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ  سائل کے حصے میں جو مکان اور دکان آئی ہے وہ پگڑی کی ہے اور والد نےاپنی جائیداد تقسیم کرتے ہوئے اسے بھی جائیداد میں شامل کرکے سائل کو دیا ہے، تو یہ مکان اور دکان سائل کے والد کی مکیت میں نہ ہونے کی وجہ سے  سائل کی ملکیت میں نہیں آئی ہے، بلکہ  پگڑی کا یہ معاملہ ختم کیا جائے اور  یہ مکان اور دکان اس کے مالک کو واپس کرکے جو رقم پگڑی کے مد میں جمع کی گی ہے، وہ رقم سائل اپنے حصے کے طور پر لے لے، تاہم  بہتر یہ ہے کہ سائل کے والد رجوع کرکے اپنی جائیداد تمام اولاد میں برابری کے ساتھ تقسیم کریں، جیساکہ مشکات  کی روایت میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کو رجوع کا حکم دیا تھا کہ اپنے صرف ایک بیٹے نعمان رضی اللہ عنہ کو  جو ہدیہ دیا ہے اس میں رجوع کریں۔

حدیث مبارک میں ہے:

" وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."

(مشکاۃ  المصابیح، 1 /261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:

’’حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں“ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔‘‘

(مظاہر حق، 3 /193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

درر الحكام في شرح  مجلۃ الاحکام  میں ہے:

"‌كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

(الكتاب العاشر: الشركات، ج:3، ص:201،ط: دار الجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لاتحتمل التمليك ولايجوز الصلح عنها."

(کتاب البیوع، ج:4، ص: 518، ط: سعید)

"العناية شرح الهداية"  میں ہے:

"قال (وإذا مات أحد المتعاقدين وقد عقد الإجارة لنفسه انفسخت، لأنه لو بقي العقد صارت المنفعة المملوكة به أو الأجرة المملوكة لغير العاقد مستحقة بالعقد لأنه ينتقل بالموت إلى الوارث وذلك لا يجوز) لأن الانتقال من المورث إلى الوارث لا يتصور في المنفعة والأجرة المملوكة، لأن عقد الإجارة ينعقد ساعة فساعة على المنافع، فلو قلنا بالانتقال كان ذلك قولا بانتقال ما لم يملك المورث إلى الوارث."

[كتاب الإجارات، ج:9، ص:145، ط:دار الفكر]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں