بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پگڑی کا مکان خالی کرتے وقت کتنی رقم لے سکتے ہیں ؟


سوال

ہمارے والد نے 1995 میں ساڑھے پانچ لاکھ روپے دے کر پگڑی کا مکان لیا اور اس میں رہنے لگے ، پھر گھر کے مالک نے ہمیں گھر خالی کرنے کا کہا، سوال یہ ہے کہ آج ہم گھر خالی کرتے ہیں تو ہم گھر کے مالک سے کتنی رقم لے سکتے ہیں ؟ یعنی صرف ساڑھے پانچ لاکھ روپے لے سکتے ہیں ؟یااس مدت میں جو گھر کی مالیت بڑھی ہے تو گھر کی قیمت کے تناسب سے زائد پیسے لے سکتے ہیں ؟

جواب

مروجہ پگڑی کا  معاملہ شرعاً درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان یا دکان  بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتے ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں  جب سائل کے والد نے مذکورہ مکان پگڑی کی صورت میں لیا ہے اور اب  مالک  اپنا مکان  خالی کروارہے ہیں تو پگڑی کا معاملہ ختم ہونے کی صورت میں  مکان کے مالک کے ذمے پگڑی کی اصل رقم  جو آپ کے والد نے دی تھی وہ واپس کرنا لازم ہے،اور والد نے اگر اس مکان میں کوئی زائد کام مثلاً:  لکڑی، ٹائلز ، رنگ وروغن یا دیگر تعمیراتی کام  نہیں کروایا تو زائد رقم کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، البتہ اگر آپ کے والد نے مذکورہ مکان پگڑی پر لینے کے بعد اس مکان میں کوئی تعمیراتی کام وغیرہ کرایا ہو، مثلاً:  لکڑی، ٹائلز ، فرنیچر یا دیگر تعمیراتی کام وغیرہ  کا اضافہ کیا ہے تو ایسی صورت میں مکان کے  اصل مالک سے باہمی رضامندی سے ان کاموں کی  کوئی رقم  متعین کرکے اصل رقم کے ساتھ مزید ان کاموں کی رقم بھی لے سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے یکطرفہ جبر نہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ مالک مکان کو اپنا مکان خالی کروانے کا حق ہوتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه : لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح عنها".

(کتاب البیوع،ص:518، ج:4، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

 "ولو أجرها المستأجر بأكثر من الأجرة الأولى فإن كانت الثانية من خلاف جنس الأولى طابت له الزيادة، وإن كانت من جنس الأولى لا تطيب له حتى يزيد في الدار زيادة من بناء أو حفر أو تطيين أو تجصيص".

( کتاب الإجارۃ، فصل فی حکم الإجارۃ، ص:206، ج:4، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں