بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پگڑی/ہبہ غیر تام/قضا شدہ نمازوں اور روزوں کے فدیہ کا حکم


سوال

1۔ہماری نانی گزشتہ تین سال قبل انتقال کر گئی، انہوں نے ورثاء میں پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں، جب کہ دو بیٹیوں  اور ہمارے نانا  کا انتقال ان کی زندگی میں ہو گیا تھا،نانی کے سامان میں کچھ نقد رقم ، سونا(زیور کی شکل میں)کپڑے اور برتن وغیرہ ہیں، ایک بلڈنگ ہے، اس میں چار پانچ فلور ہیں جو   پگڑی  پر ہیں، نانی نے اپنی زندگی میں  بلڈنگ  اپنی تمام بیٹیوں کے نام لکھ دی تھی، لیکن ان کے حوالے نہیں کی تھی اور  کرایہ نانی کے پاس آتا تھا ، لہذا ان حالات میں ان تمام چیزوں کی تقسیم کا شرعی طریقہ کیا ہوگا؟

2۔بلڈنگ  جب بیٹیوں کے نام کی تھی  تو  اس میں  چوتھے نمبر کی خالہ کا نام بھی تھا اور کاغذات پر ان کے دستخط بھی ہوئے،  مگر کچھ عرصے کے بعد نانی کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں ۔

کیا اس کی اولاد بھی اس مال میں حق دار ہوگی اور بلڈنگ کے علاوہ وہ گھر جس کا کرایہ ہر ماہ وصول ہوتا ہے،  کیا وہ بھی تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا؟

3۔مرحومہ کے دو بھائی تھے جو ان کی زندگی میں انتقال کر گئے تھے، مگر ان کی اولاد میں چھ بیٹے جو کہ اس وقت حیات ہیں ،  وہ بھی اس سارے میں کس شرح سے حق دار ہوں گے؟

4۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادی پر ان کو سونا دیا جب کہ ایک بیٹی جو کہ غیر شادی شدہ تھی، اور ان کے لیے رکھ دیا ،لیکن زندگی میں وہ بیٹی کے حوالے نہیں کیاتھا، کیاوہ ورثاء میں تقسیم ہوگا، یا علیحدہ کر لیا جائے گا، صرف اس بیٹی کا حق ہوگا۔

5۔ واضح رہے کہ گزشتہ کئی برس سے مسلسل ذہنی اور جسمانی طور پر علیل رہنے کی وجہ سے ان کی نمازوں اور روزوں کی ادائیگی نہیں ہوسکی،گزشتہ کئی برسوں سے صحیح طور پر زکوۃ کی ادائیگی کا بھی کسی وارث کو کوئی علم نہیں ہے، لہذا اس صورت میں فدیہ اور زکوۃ کی ادائیگی تقسیم سے قبل ورثاء کے ذمہ ہے یا نہیں ؟اور کتنے عرصے کے حساب سے فدیہ اور زکوۃ دینی ہوگی؟

واضح رہے کہ مرحومہ نے نماز ، روزہ کے فدیہ اور زکوۃ کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی ۔

جواب

واضح رہے کہ مروجہ پگڑی کا معاملہ شرعاً ناجائز ہے، اس لیے  کہ پگڑی نہ تو مکمل بیع(خرید و فروخت) میں داخل ہے اور نہ ہی مکمل اجارہ میں داخل ہے،  بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک غیر شرعی معاملہ ہے ۔

 پگڑی پر اگر کوئی جائیداد دی جائے تو اس میں اصل مالک کی ملکیت ختم نہیں ہوتی،  بلکہ وہ بدستور جائیداد کے اصل مالک کی ملکیت میں رہتی ہے، پگڑی پر لینے والا شخص صرف اپنی رقم کا مالک اور حقدار ہوتا ہے۔

نیز واضح رہے کہ ہبہ (گفٹ) کے درست ہونے کے لیے واہب (گفٹ کنندہ)کی طرف سے موہوب لہ(جسے ہبہ کیا گیا)کو مالکانہ قبضہ و تصرف کے ساتھ دیا جانا ضروری ہے صرف نام کردینا کافی نہیں ۔

1۔مذکورہ تفصیل کے  پیش نظر صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بلڈنگ جو کہ نانی نے پگڑی پر دی ہے تو پگڑی پر دینا جائز نہیں تھا اور پگڑی پر دینے کی وجہ سے اس بلڈنگ سے نانی کی ملکیت ختم نہیں ہوئی ۔

2۔باقی زیرِ نظر  مسئلہ میں مذکورہ  بلڈنگ سائل کی نانی نے اپنی  بیٹیوں کے صرف  نام پر کی  تھی، مکمل مالکانہ  قبضہ و تصرف دے کر ان کے حوالے نہیں کی، جس کی وجہ سے ہبہ(گفٹ)مکمل نہیں ہوا، لہذا اب پوری  بلڈنگ  اور جو  گھر کا کرایہ آرہا ہے،سب تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہوگی۔

سائل کی جس خالہ کا نانی کی زندگی میں انتقال ہو گیا تھا، اس کی اولاد کا مرحومہ نانی  کے ترکہ میں کوئی حق و حصہ نہیں ہوگا۔

3۔مرحومہ کے بھائیوں کے بیٹے مرحومہ کے ورثاء میں شامل ہیں ، لہذا ترکہ میں وہ بھی شریک ہیں، آئندہ سطور میں تقسیم ِ ترکہ  کی تفصیل آرہی ہے۔

4۔ چوں کہ مرحومہ نے یہ سونا زندگی میں اپنی بیٹی کے حوالے نہیں کیا تھا، لہذا اب وہ  سونا دیگر ترکہ کے ساتھ مل کر تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا، البتہ تمام عاقل بالغ ورثاء اپنی خوشی و رضامندی سے یہ سونا بیٹی کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، وہ لے سکتی ہے۔

5۔مرحومہ نے چوں کہ نماز ، روزوں کے فدیہ کی وصیت نہیں کی تھی، لہذا ورثاء پر مرحومہ کی فوت شدہ  نماز وں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، اسی طرح اگر مرحومہ نے گزشتہ سالوں میں زکوۃ ادا نہیں کی تو اب ورثاء پر اس کی ادائیگی لازم نہیں ہے، البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور اپنی رضامندی سے مرحومہ کی فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں اور یہ ان کی طرف سے مرحومہ کے حق میں احسان اور نیکی ہوگی ، نماز ،روزہ کے فدیہ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز ،روزہ کے عوض میں پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت اداکی جائے،اور وتر کی نماز کابھی علیحدہ فدیہ دیا جائے گا۔

سائل کی  مرحومہ نانی کی میراث کی تقسیم کا  شرعی طریقہ یہ ہے کہ   مرحومہ کے ترکہ  میں سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچ نکالنے  کے بعد ، اگر مرحوم پر کوئی قرض   ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد،    اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال  کے ایک تہائیمیں اسے نافذ کرنے کے بعد ،باقی متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ  کے کل 90  حصے کئے جائیں گے، جس میں سے بارہ  حصے ہر بیٹی کو اور پانچ حصے ہر بھتیجے کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: نانی، مسئلہ: 3 / 90

بیٹی

 

بیٹی

 

بیٹی

 

بیٹی

 

بیٹی

 

بھتیجا

 

بھتیجا

 

بھتیجا

 

بھتیجا

 

بھتیجا

 

بھتیجا

 

2

 

1

 

12

 

12

 

12

 

12

 

12

 

5

 

5

 

5

 

5

 

5

 

5

 

یعنی سو روپے میں سے  ہر بیٹی کو13.3333روپے اور ہر بھتیجے کو5.555روپے ملیں گے۔

لسان الحكام  في معرفۃ الأحكام ميں ہے:

"إن قال جعلته له يكون هبة وإن قال جعلته باسمه لا."

(الفصل التاسع عشر في الهبة:371،ط: البابي الحلبي - القاهرة)

فتاوی  شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

  (كتاب الہبة،5 /690/692،ط:سعید)

فتاوی قاضیخان میں ہے:

"رجل مات وعليه صلوات فإنه يعطي لكل صلاة نصف صاع من الحنطة وفي الصوم يعطي لكل يوم نصف صاع."

(فصل في الكفارة:1 / 545،ط:دار الکتب العلمیۃ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں