میرے والدصاحب نے داداکی زمین کوفروخت کرکے ڈیڑھ لاکھ روپے میں پگڑی کی ایک دکان لی،ساتھ میں کرایہ بھی اداکرتے رہے ،اور بیس سال سے تک وہ دکان ہمارے پاس رہی، ہم نےاس میں رنگ روغن، میٹراوربجلی کابورڈلگایاہے،البتہ مصروفیت کی وجہ سے وہ دکان بند رہی، اب جب کہ مالک نے وہ زمین فروخت کردی،تودوسرےمالک نے سب دکان داروں سےزبردستی وہ دکانیں خالی کروا لیں،اورسب کوپیسے دے دیے،ہمیں بھی سات لاکھ روپے ملے۔
میرے داداکےکل چھ بیٹے اورایک بیٹی ہے ،جب کہ دادی کاانتقال ہوگیاہے،اوراس زمین میں جوبیٹی کاحصہ تھاوہ انہیں دیاگیاہے،اب صرف بیٹوں کاحصہ رہتاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ پگڑی کے پیسوں میں کن کن کاحصہ ہے؟
واضح رہے کہ مروجہ پگڑی کا معاملہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی نہ تو مکمل خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا ایک ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان یا دکان بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتے ہیں ،لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے۔
پگڑی کا معاملہ ختم کرنے کی صورت میں جب پگڑی پر لینے والا شخص مکان اس کے مالک کو واپس کرے گا تو مالک کے ذمے پگڑی کے اُتنے ہی پیسے واپس کرنا لازم ہوں گے جتنے کرائے دار نے مکان لیتے وقت ادا کیے تھے ، البتہ اس نے اس دکان میں اپنی ذاتی رقم سے کوئی تعمیراتی کام وغیرکردیاہومثلاً اس نے مکان میں کوئی تعمیراتی کام مثلاً: لکڑی، ٹائلز ، فرنیچر وغیرہ کا اضافہ کیاہو تو ایسی صورت میں وہ مکان کےاصل مالک یامالک کی اجازت سےدوسرےکرایہ دار سے باہمی رضامندی سے ان کاموں کی جوبھی رقم متعین کرناچاہیں وصول کرناجائزہے۔
صورت مسئولہ میں جب آپ کے والدصاحب نے ڈیڑھ لاکھ روپے دےکردکان پگڑی پرلی اورساتھ میں آپ کےوالدنےرنگ روغن ،میٹراوربجلی کابورڈلگایا،اورکچھ عرصہ بعدمالک اول نے اس زمین کوفروخت کردیااوردوسرے مالک نے آپ لوگوں کواگراسی اضافی کام کےعوض سات لاکھ روپے دئےچوں کہ آپ کےوالدنےاس دکان میں کام کیاتھاتواس صورت میں آپ لوگوں کےلیےسات لاکھ روپے لینے جائز ہوں گے،اوراس میں سے بہن کوحصہ پہلے اداکرچکے ہیں تواب وہ چھ بھائیوں میں تقسیم ہوں گے،جس میں سے ہرایک بیٹے کوایک،ایک حصہ ملے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الأشباه : لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف. (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح عنها."
( کتاب البیوع،ج:4،ص:518، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102630
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن