اگر کوئی کافر مرد یا عورت پاگل پن کی حالت میں اسلام قبول کرے تو وہ قابل قبول ہے یا نہیں؟
میرا ایک شاگرد بلجیم سےہے اس کی بہن کو دماغ کا کینسر ہوا ہے تو وہ اپنی ہوش و حواس میں نہیں ہوتی، لیکن اس کا بھائی مسلمان ہے، اس نے اپنی اس بیمار کافر بہن کو کلمہ شہادت پڑھایا ہے۔
صورت ِ مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتو ن کو بلوغت کے بعد کینسر کی بیمار ی( جس میں ہوش وحواس باقی نہیں رہتا )مبتلا ہوئی ہے ، تو ہوش وحواس نہ ہونے کی حالت میں اسلام معتبر نہیں ہے ، اس لیے اگر کوئی ایسا موقعہ مل جائے جس میں مذکورہ خاتون اپنے ہوش وحواس میں ہو ایسی حالت میں اگر وہ اسلام قبول کرے تو اس کا اسلام معتبر ہو گا۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:
"ولا يستغفر لمجنون أو صبي" إذ لا ذنب لهما
قال في حاشیته : قوله: "ولا يستغفر لمجنون" قال البرهان الحلبي ينبغي أن يقيد بالأصلي لأنه لم يكلف بخلاف العارض فإنه قد كلف وعروض الجنون لا يمحو ما قبله بل هو كسائر الأمراض اهـ ويدل عليه تعليل الشرح بقوله إذ لا ذنب لهما."
(کتاب الصلاۃ، باب أحكام الجنائز، فصل الصلاة عليه، ص:587، ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
ملفوظات حکیم الامت میں ہے:
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایاکہ اگر حالتِ کفر میں مجنون ہوجائے تو اس حالت کا ایمان معتبر نہیں، اور اگرحالتِ اسلام میں مجنون ہوجائے تو اس حالت کا کفر معتبر نہیں، غرض جس حالت پر جنون ہو وہ قانون شرع سے بدل نہیں سکتا، جیسے موت جس حالت پر ہو اس ہی کے موافق حکم ہوتا ہے، مثلاً جس طرح موت کے بعد ولایت سلب نہیں ہوتی اسی طر ح جنون سے بھی ولایت سلب نہیں ہوتی، اگر ولایت کی حالت میں جنون ہوگیا وہ ولی ہے، اور اگرعامی ہونے کی حالت میں جنون ہوگیا وہ عامی ہے، اگر مسلم ہونے کی حالت میں جنون ہوگیا وہ مسلم ہے، اگر کافر ہونے کی حالت میں جنون ہوگیا وہ کافر ہے۔
(ملفوظ:35، ج:3، ص:41، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604100178
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن