بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاگل لڑکی کا علاج کرنا


سوال

ایک لڑکی پاگل ہے،علاج بھی ممکن نہیں دِکھ رہا ہے؛چوں کہ علاج کرايا، پر اثر نہیں ،ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لاعلاج ہے،اب اس لڑکی کا پاگل پن اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اسے اپنے پیشاب پاخانہ اور کپڑے کا بھی خیال نہیں تو اس صورت میں عریانیت اور بےپردگی جس سے رشتے داروں اور سماج والوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہےتو کیا ایسی لڑکی کو دوائي وغیرہ استعمال کراکے جان سے مارسکتے ہیں؟ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب کہ لڑکی اپنے حواس میں نہیں ہے اور  پاگل ہو چکی ہے،  اس کے باوجود بھی اس کو کوئی دوائی یا زہر دے کر جان سے مارنا  جائز نہیں ہے،اگر  اس کو زہر دے کر مارا گیا تو قتل کا گناہ ہوگا۔ اس لیے کہ انسان جس حالت میں بھی ہو  محترم ہے، اس کے رشتے دار اور خیال رکھنے والوں پر لازم ہے کہ جس درجے ممکن ہو اس کا خیال رکھیں، دیگر لوگوں کے سامنے عار اور شرمندگی کی پرواہ نہ کریں، اللہ تعالی اس کے خیال رکھنے کی برکت سے اس کا خیال رکھنے والوں کو برکتیں عطا فرمائیں گے۔

قرآن پاك ميں هے:

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳)

 اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کرر کھا ہے۔

فتاوى ہندیہ میں ہے:

"وهي في الشرع اسم لفعل محرم سواء كان في مال أو نفس لكن في عرف الفقهاء يراد بإطلاق اسم الجناية الفعل في النفس والأطراف كذا في التبيين والأول يسمى قتلا وهو فعل من العباد تزول به الحياة والثاني يسمى قطعا وجرحا كذا في العناية"۔

 (كتاب الجنايات 6/  2 ط: ماجدیہ )

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں