بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار کے بغیر پیسے پر پیسہ کمانا حرام ہے


سوال

میرے چھوٹے بھائی نے مجھے 7 لاکھ روپے دیے،میرے اور  چھوٹے بھائی کے درمیان میرے ایک پلاٹ کے اندر کاروباری شراکت داری زبانی معاہدہ طے پایا جس کے نکات  درج ذیل ہیں:

پلاٹ کی قیمت 80 لاکھ روپے  رکھی گئی  اور نفع 20 فیصد طے پایا،یعنی   80 لاکھ کے اوپر ایک سال کے بعد پلاٹ کی جو  قیمت لگے گی اس پر 20  فیصد نفع دوں  گا اور 7 ہزار  ماہواری کرایہ   دوں  گا،  اس کے    بعد پلاٹ کو کرایہ پر دینے کی غرض سے کچھ تعمیرات کی ضرورت پڑی   جس پر میں نے چھوٹے بھائی کے  مشورہ سے کم و بیش سات لاکھ   خرچ کیے،  لہذا   میرے  مطابق اب  پلاٹ کی قیمت 80 لاکھ کی جگہ 87 لاکھ روپے ہونی چاہیے اور 20  فیصد نفع بھی  87 لاکھ   کے اوپر والی رقم پر لگایا جانا چاہیے، پھر   آٹھ نو ماہ پہلے اس پلاٹ کی ایک بار پھر سے قیمت کا تعین برائے حصول نفع کیا گیا، پھر  اس کی قیمت   مشورے سے ڈیڑھ کروڑ روپے طے پائی ، جس پر میں  نے کہا کہ میں اس کا نفع   چار سے پانچ ماہ میں ادا کر دوں گا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے بھائی  نے  ایک تنازعہ پیدا کر دیا ہے وہ یہ ہے  کہ  جو  قیمت  ڈیڑھ کروڑ روپے تھی اس  میں محض چند ماہ کی تاخیر کے باعث 50 لاکھ  کے اضافے کا مطالبہ کردیا ہے ، موصوف  کا کہنا ہے کہ  پلاٹ کی قیمت اب 2کروڑ روپے  ہے  اور نفع کی اضافی رقم پر 20  فیصد نفع دیا جائے، کیا یہ شرعاً  ٹھیک ہے ؟

وضاحت

1۔ پلاٹ کا مالک کون ہے؟ پلاٹ کا مالک سائل ہے۔

2 ۔ پلاٹ فروخت کیا گیا ہے یا نہیں؟  نہیں ۔

3۔ بھائی کو کرایہ کس بنیاد پر دے رہے ہیں ؟ شروع معاہدہ میں طے ہوا تھا۔

4۔ مستقبل میں پلاٹ فروخت کرنے کا ارادہ ہے؟ سائل  اپنی ضروریات کے لئے اور چھوٹے بھائی کو پیسے دینے کے لیے اس کو  بیچ دے گا۔

5۔ بھائی کو پلاٹ میں شریک بنایا ہے یا نہیں؟ نہیں بنایا۔

5 ۔ چھوٹے بھائی کی اصل قیمت 7  لاکھ روپے کا شراکت کے بعد کیا ہوگا؟ شروع میں اس کا کچھ پتا نہیں تھا لیکن اب چھوٹے بھائی اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

7 ۔ حقیقت میں کوئی کاروبار کیا ہے یا نہیں؟ حقیقت میں کوئی کاروبار نہیں کیا۔

جواب

مذکورہ شراکت داری کا معاملہ شرعاً درست نہیں تھا، اس لیے کہ شراکت کے درست ہونے کے لئے حقیقی کاروبار ہونا ضروری ہے، بغیر کاروبار کے شرکت کرنا اور متوقع نفع میں شرکت کرنا شرکتِ فاسدہ ہے، نیز پلاٹ کا مالک جب سائل ہے تو سائل کا اپنے بھائی کو محض شراکت کے لئے پیسے دینے کی بنیاد پر پلاٹ کا ماہواری کرایہ دینا بھی شرعاً درست نہیں تھا، اس لیے مذکورہ پلاٹ کا مالک سائل ہی ہے، سائل کے بھائی کا اس میں یا اس کے ہونے والے نفع میں کوئی حصہ نہیں ہوگا،سائل کا بھائی صرف  اپنی دی ہوئی رقم لینے کا حق دار ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرطها) أي ‌شركة ‌العقد (‌كون المعقود عليه قابلا للوكالة) فلا تصح في مباح كاحتطاب (وعدم ما يقطعها كشرط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لأنه قد لا يربح غير المسمى."

(‌‌كتاب الشركة، ج:4، ص:305،دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال ولا عبرة بشرط الفضل ) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله، كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما فالشركة فاسدة، والربح للمالك وللآخر أجر مثله، وكذلك السفينة والبيت، ولو لم يبع عليها البر فالربح لرب البر وللآخر أجر مثل الدابة."

(کتاب الشرکة، ‌‌فصل في الشركة الفاسدة، ج:4، ص: 326، ط: سعید)

فقط وللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408101140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں