بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیکج کرنے پر دوکان دار کا کسٹمر سے اضافی رقم لینے کا حکم


سوال

میری ایزی لوڈ کی دکان ہے ،موبائل فون پر  جو پیکج ایکٹیویٹ کرتے ہیں ،کیا اس پر اضافی سروس چارجز کسٹمر سے لے سکتے ہیں؛ کیوں کہ جو کمیشن کمپنی دیتی ہیں وہ بہت کم ہے اور بعض پیکیجز پر تو کمیشن ہوتا ہی نہیں ہے ,تو کیا ہم کسٹمر سے سروس چارجز کی مد میں فی پیکج دس روپے یا بیس روپے لے سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ایزی لوڈ   کا کام کرنے والے افراد کی حیثیت درحقیقت کمپنی کے نمائندہ کی ہے، اور وہ جو کارڈ فروخت کرتے ہیں، یا ایزی لوڈ کرتے ہیں، وہ کمپنی کے وکیل  کی حیثیت سے کرتے ہیں، جس پر انہیں کمپنی کی جانب سے  معاوضہ بصورتِ کمیشن دیا جاتا ہے، کمپنی کی جانب سے طے شدہ کمیشن سے زائد وصول کرنے کی کمپنی کی طرف سے اجازت نہیں ہوتی، یہاں تک کے اگر کوئی نمائندہ مقررہ نرخ سے زائد وصول کرتے پکڑا جائے تو کمپنی کی جانب سے نمائندگی کے حق سے معزول کرنے کا حق کمپنی محفوظ رکھتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں ایزی لوڈ والے کے لیے موبائل پیکج لگانے پراگر کمپنی کی طرف سے کوئی مقرر کمیشن ملتا ہے یا کپمنی کی طرف سے اضافی چارجز لینے کی اجازت نہیں ہے تو پھر اس دکان دار  کےلیے یہ اضافی چارجز لیناجائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ   میں اگرکمپنی نے دوکان دار کو  پیکجز کرانے پر کسٹمر سے اضافی  چارجز لینے سے منع کیا ہے، تو دوکان دار کے  لیے کسٹمر سے مزید پیسے لینا شرعاً جائز نہیں ہے(اگرچہ کمپنی کی طرف سے کمیشن کم ملتی ہو)،البتہ اگر کمپنی کی طرف سے کسٹمر سے مزید چارجز فیس لینے پرکوئی پابندی نہیں ہو، تو دوکان دار  کے  لیے کسٹمر سے مزید  رقم لینے کی گنجائش ہوگی ورنہ نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"الوكيل بالبيع فالتوكيل بالبيع لا يخلو إما أن يكون مطلقا، وإما أن يكون مقيدا، فإن كان مقيدا يراعى فيه القيد بالإجماع".

(کتاب الوکالۃ،فصل فی بیان حکم التوکیل ،ج:6،ص:27،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدًا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(کتاب الاجارۃ،ج:6،ص:63،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں