پچیس کھیلنا کیسا ہے ،پشتو میں اسےقتار کہتے ہیں، اس کے کھیلنے کا طریقہ کچھ یوں ہےکہ زمین پر 4 مربع لکیر کھینچی جاتی ہے اس مربع کے درمیان ایک(کونے سے دوسرے کونے تک) لکیر کھینچی جاتی ہے ،پھر اس کے کونے پر پتھر رکھے جاتے ہیں، ایک پتھر دوسرے پتھر پر لیکر دوسرے جگہ پر رکھا جاتا پھر اس طرح جس کے پتھر ختم ہوجاتے ہیں ،وہ ہار جاتا ہے اور جس کے زیادہ پتھر رہ جاتے ہیں ،وہ جیت جاتا ہے۔ شرعا یہ کھیل کھیلنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ چند شرائط کے ساتھ کھیل کھیلنے کی اجازت شریعت نے دی ہے:
(1) ایسا کھیل ،جس کی ممانعت قرآن یاحدیث میں آئی ہے ایسا کھیل بالاتفاق حرام /مکروہ تحریمی ہے۔
(2) ایسا کھیل،جس میں نہ دین کا فائدہ نہ دنیا کا ،کھیلناحرام ہے۔
(3)ایسا کھیل، جس کا فائدہ تو ہو لیکن اس کا نقصان بنسبت فائدہ کے زیادہ ہو،اگر ایسا کھیل اللہ پاک کی یاد سے غافل کردے، ایساکھیل بھی منع ہے،
(4)اگر ایسا کھیل ہے ،جس میں منفعت تو ہے لیکن نیت لہو لعب کی ہے،ایسا کھیل کھیلنا مکروہ ہے۔
(5)اگرایسا کھیل ہے، جس میں منفعت کی نیت کے ساتھ ساتھ اللہ پاک کی یاد سے غافل بھی نہیں کررہا،دینی یا دنیاوی فائدہ بھی ہو، ایسا کھیل کھیلنا جائز ہوگا۔
ہمارے علم کے مطابق سوال میں ذکر کردہ کھیل شطرنج کی مانند توہے، لیکن اس میں اگر اس قدر انہماک اور مشغولیت نہیں رہتی کہ فرائض جیسی اہم عبادات چھوٹ جائے،بس ذہنی تنشیط کے واسطے کھیلاجائے تو اس کی گنجائش ہوگی۔
تکملہ فتح الملہم میں ہے:
"... فالضابط في هذا الباب - عند مشايخنا - المستفاد من أصولهم وأقوالهم أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام، أومكروه تحريماً. وهذا أمر مجمع عليه في الأمة، متفق عليه بين الأئمة. وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة (كما في النردشير) كان حراماً، أو مكروهاً تحريماً، وألغيت تلك المصلحة والغرض المعارضتها للنهي المأثور، حكماً بأن ضرره أعظم من نفعه ... وهذا أيضاً متفق عليه بين الأئمة، غير أنه لم يثبت النهي عند بعضهم فجوزه ورخص فيه، وثبت عند غيره فحرمه وكرهه، وذلك كالشطرنج، فإن النهي الوارد فيه متكلم فيه من جهة الرواية والنقل، فثبت عند الحنفية وعامة الفقهاء فكرهوه، ولم يثبت عند ابن المسيب وابن المغفل وفي رواية عند الشافعي أيضاً، فأباحوه .وأما ما لم يرد فيه النهي عن الشارع، وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي على نوعین:الأول : ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب من منافعه، وأنه من اشتغل به ألهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلوات والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه، لاشتراكالعلة، فكان حراماً أو مكروهاً . والثاني : ما ليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة، وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد يرتقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه."
(باب تحریم اللعب بالنردشیر ج: 4، ص: 381، ط: دار إحیاء تراث الإسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101128
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن