بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پچاس تولہ زیور کو سونے کے بدلے بیچ کر آدھا سونا ادھار دینے کا حکم


سوال

زید مدراس والا ہے، وہاں سے 50 تولہ سونے کا زیور کرنول (ایک شہر ہے) لاتاہے، عمرو اور بکر اس سے 25،25 تولہ زیور خریدلیتے ہیں اور زید کواس زیور کی قیمت  میں سے آدھی قیمت سونے کی شکل میں دیتے ہیں اور آدھی قیمت ادھار رکھتے ہیں، پھر عمرو اور بکر یہ زیور لے کر دوسرے قصبوں میں جاکر دکانداروں کو بیچتے ہیں، دکاندار بھی عمرو اور بکر کو زیور کی قیمت میں سے آدھی قیمت سونے کی شکل میں دیتاہے اور آدھی قیمت ادھار رکھتاہے، پھر زید ہفتہ کے بعد مزید مدراس سے 50 تولہ سونے کا زیور  لاتاہے، پھر بکر اور عمرو  زید سے سونے کے بدلے وہ زیور خریدلیتے ہیں اور سابقہ آدھا سونا اور اب کے زیور کی قیمت میں سے آدھا سونا دیتے ہیں اور آدھا ادھار رکھتے ہیں، اسی طرح سالوں سے یہ سلسلہ چل رہاہے،  اور تجارت کا یہ طریقہ ہمارے علاقے میں بکثرت رائج ہے، کیا اس طرح سے تجارت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ سونے چاندی کی خرید وفروخت میں دونوں طرف سے  معاملہ نقد اور ہاتھ در ہاتھ ہونا لازمی ہے، اس میں ادھار جائز نہیں ہے، کیونکہ سونا چاندی ثمن کے قبیل سے ہے اور جب ثمن کا تبادلہ ثمن سے ہو تو جانبین سے معاملہ کا نقد ہونا ضروری ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کا پچاس تولے کا زیور بکر اور عمرو کو سونے کے بدلے بیچ کر آدھا سونا نقد لے کر آدھے سونے میں ادھار کا معاملہ کرنا  جائز نہیں ہے، اسی طرح بکر اوررعمرو کا دکانداروں کو   سونے کے بدلے زیور بیچ کر آدھے سونے میں ادھار کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے، اور سائل کے علاقے میں رائج مذکورہ  طریقۂ تجارت سب ناجائز  اور حرام هے، اس ليے اس سے اجتناب لازم ہے۔

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"سوال:کیا فرماتے ہیں علماءدین متین کہ آج مثلاً سونے کا حاضر بھاؤ 600  روپیہ فی تولہ ہے، ایک سنار ہم سے 10 تولے سونا مانگتاہےایک ماہ کے ادھارپر، ہم اس سے کہتے ہیں کہ میں تو 640 روپے فی تولہ دوں گا، وہ کہتاہے کہ دے دو، رقم ایک ماہ میں ادا کردوں گا، ہم اس کو سونا دیتے ہیں، تو عرض یہ ہے کہ آج کے بھاؤ سے ہمیں  10 تولے سونے میں 400 روپے بچت ہوتی ہے، کیا یہ ہمارے لیے جائز ہےیا نہیں؟"

محمدیونس

جواب:

"یہ تو بیعِ صرف ہے، اس میں ادھار جائز نہیں"۔فقط واللہ اعلم

بندہ محمداسحاق، نائب مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان

"بیعِ سابق صحیح نہیں ہے، فاسد ہے، اس میں جو نفع  ہواہےاسے خیرات کردیاجائے"۔فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح، محمدعبداللہ

(ج:8، ص:450، ط:جمعیت پبلیکیسنز لاہور)

اور آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

سوال:

"اگر کوئی شخص سونا یا چاندی گھر والوں کو پسند کرانے کے لیےلاتاہے اور پھر بعد میں دوسرے دن یا کچھ عرصہ کے بعد اس کی رقم بیچنے والے کو دیتاہے تو یہ خرید وفروخت درست ہے یانہیں؟اگر درست نہیں ہے تو کون سی صورت درست ہے؟ کیونکہ گھر والوں کو دکھائے بغیر یہ چیز خریدی نہیں جاتی ہے؟"

جواب:

"گھر والوں کو دکھانا جائز ہے، لیکن جب خریدنا ہو تو دونوں طرف سے نقد معاملہ کیا جائے، ادھار نہ کیا جائے، اس لیے گھروالوں کو دکھانے کے لیے جو چیز لے گیا تھا اس کو دکان دار کے پاس واپس لے آئے،  اس کے نقد دام  ادا کرکے وہ چیز لے جائے"۔

(ج:7، ص:58، ط:لدھیانوی)

الدرالمختار میں ہے:

"(وصح البيع بالفلوس النافقة) وإن لم تعين كالدراهم".

وفی حاشیتہ لابنِ عابدین:

"(قوله: وإن لم تعين) لأنها صارت أثمانا بالاصطلاح فجاز بها البيع ووجبت في الذمة كالنقدين، ولا تتعين وإن عينها كالنقد".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:270، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: لثمنيته حينئذ) أي حين إذا كان رائجا؛ لأنه بالاصطلاح صار أثمانا، فما دام ذلك الاصطلاح موجودا لا تبطل الثمنية لقيام المقتضي بحر، فلو هلك قبل القبض لا يبطل العقد فتح".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:267، ط:سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.

(قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتبة العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں