بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پانی کے ناپاک ٹینک سے وضو، غسل وغیرہ کرنے کا حکم


سوال

مجھے ایک پریشانی لاحق ہے ،گھر کے ٹینک میں ناپاک پانی چلا گیا تھا، میں نے گھر والوں سے کہا کہ یہ ناپاک ہو چکا ہے ،مگر گھر والوں نے اسے پاک نہیں کیا اور میں نے بھی اسی پانی سے وضو غسل شروع کر لیا ،کیوں کہ مجھے لگا کہ یہ ٹینک جاری پانی کے حکم میں ہے ،مگر صحیح مسئلہ سمجھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ تو قلیل پانی ہے اور ٹینک 20 اسکوائر فٹ نہیں ہے، اب گھر والے اسے پاک بھی نہیں کر رہے اور نماز پڑھنے کا بھی کہتے ہیں۔

1.ایسے موقع پر میں کیا کروں ؟میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں، انہیں کس طرح کہوں کہ ٹینک پاک کریں ،جب کہ میں خود اس ٹینک کو پاک نہیں کر سکتا۔

2.اور میں دعا بھی صحیح طرح نہیں مانگ پاتا ،کیوں کہ ہماری دوکان پر جانداروں کی تصاویر بیچی جاتی ہیں تو اس طرح میری غذا بھی جائز نہیں ہے، میں بے بس ہوں، میری نمازیں قضا ہو رہی ہیں اور میں اسی حالت میں مرنا بھی نہیں چاہتا ۔آپ سے گزارش ہے کہ میرے لیے دعا کیجیے اور ان مسائل کا آسان حل بتا دیں۔

جواب

1.صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً پانی کےمذکورہ ٹینک میں ناپاک پانی چلاگیاہےاور سائل کو اس بات کا یقین بھی ہےتو سائل  اس کے پاک کرنےکا بندوبست کرے،البتہ اگرخود پانی کےٹینک کو پاک  نہیں کرسکتا اور گھر والے پاک نہ کریں تو ایسی صورت میں سائل کو چاہیےکہ اپنےخاندان یا محلہ والوں میں سےکسی سنجیدہ،باوقار ،معزز شخصیت کےذریعےاپنےگھر والوں کو مسئلہ کی اہمیت بتاکر ان سےمذکورہ ٹینک صاف کروائے، ٹینک کے ناپاک پانی سےوضو ،غسل کرنا یا کپڑےدھونا درست نہیں ہوگا،کیوں کہ وضو،غسل کےلیے اور کپڑوں کےصاف ہونےکےلیےپانی کا پاک ہوناضروری ہے۔

نیزمذکورہ ٹینک کوپاک کرنےکاطریقہ یہ ہےکہ ٹینک سےنجاست اورموجودہ ساراپانی کسی طریقہ سےبھی نکال لیاجائےتو پاک ہوجائےگا،اوراگر ٹینک کسی وجہ سےمکمل خالی کرنابہت مشکل ہو تو اس میں ایک طرف سےپانی ڈالاجائےاورایک طرف سےجاری کردیا جائے،(یعنی مسلسل اس میں پاک پانی آتارہے اور  ناپاک پانی نکلتا رہے) یہاں تک کہ پانی کے تینوں اوصاف (رنگ، مزہ، بو) اپنی اصلی حالت پر آجائیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌حوض ‌صغير تنجس ماؤه فدخل الماء الطاهر فيه من جانب وسال ماء الحوض من جانب آخر كان الفقيه أبو جعفر - رحمه الله - يقول: كما سال ماء الحوض من الجانب الآخر يحكم بطهارة الحوض وهو اختيار الصدر الشهيد - رحمه الله -. كذا في المحيط وفي النوازل وبه نأخذ كذا في التتارخانية."

(كتاب الطهارة، الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ، 17/1، ط: رشیدیه)

2.نیزواضح رہےکہ اسلام میں جاندار کی  تصویر سازی کی سخت مذمت وارد ہوئی ہے، تصویر سازی حرام ہے ، اس لیے جان دار کی  تصویر  فروخت کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس سے حاصل شدہ آمدنی حلال ہوتی ہے،رزق حرام کمانا اسلام میں سخت ناجائز اور اس سے حاصل ہونے والی ہر چیز منحوس ہے،مالِ حرام کمانے اور کھانے کی ایک نحوست یہ بھی ہےکہ اس کا کوئی عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا،نہ ہی اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، عمل قبول نہ ہونے کی وعید متعدد احادیث میں آئی ہے۔

چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماسےروایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی مستجابُ الدّعوات ہونےکےلیےدعاکی درخواست پراُن کوحلال کھانےکااہتمام کرنےکی تاکید کی،پھرارشادفرمایاکہ ’’اس ذات کی قسم جس کےقبضےمیں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی جان ہے،بلاشبہ بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دن کا عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس آدمی کا جسم حرام و سود سے پلا ہو،اس کےلیے جہنم ہی لائق ہے‘‘۔

"عن ابن عباس قال: تليت هذه الآية عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: {يا أيها الناس كلوا مما في الأرض حلالا طيبا} [البقرة: 168] فقام سعد بن أبي وقاص، فقال: يا رسول الله، ادع الله أن يجعلني مستجاب الدعوة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " يا سعد أطب مطعمك تكن مستجاب الدعوة، ‌والذي ‌نفس ‌محمد ‌بيده، إن العبد ليقذف اللقمة الحرام في جوفه ما يتقبل منه عمل أربعين يوما، وأيما عبد نبت لحمه من السحت والربا فالنار أولى به."

(المعجم الأوسط للطبراني، 310/6، ط : دارالحرمين القاهرة)

لہٰذا سائل کےبڑوں کو چاہیےکہ  جاندار کی تصاویربیچنے کی بجائےکوئی اور حلال روزگار شروع کریں۔ باقی سائل کو چاہیے کہ وہ نماز کسی حال میں نہ چھوڑے، جان کر نماز قضا کردینا مستقل گناہ ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں