بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکی کا طریقہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں ادا کردہ نمازوں کا حکم


سوال

پاکی ناپاکی کے اصول معلوم نہیں ہوں اور ساری نمازیں ناپاکی میں پڑھ لی ہوں، تو کیا نمازیں ہو جائیں گی؟

جواب

نماز کی صحت کے لئے بدن، کپڑے، اور جائے نماز کا پاک ہونا شرعا ضروری ہوتا ہے، پس اگر کسی نے علم نہ ہونے کے سبب  ناپاکی کی حالت میں یا ناپاک جگہ پر  نماز ادا کرلی،  تو علم ہونے کے بعد مذکورہ نماز کا اعادہ شرعا ضروری ہوتا ہے،اس لئے کہ مسلما ن کے لئے لاعلمی عذر نہیں ہے؛لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ نمازوں کا اعادہ لام ہوگا۔

البتہ سائل نے سوال کی نوعیت عام رکھی ہے، جس کے سبب اصولی جواب دیا گیا ہے، پس اگر سائل کی مراد غسل جنابت سے پاکی کی شرائط یعنی فرائض غسل کا علم نہ ہونا ہو تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے غسل جنابت  کے دوران کلی یا ناک میں پانی نہ ڈالا ہو،  لیکن بعد میں نماز سے قبل وضوء کے دوران کلی و ناک میں پانی ڈال لیا ہو تو اس کا غسل ہوجائے گا، اس کے بعد ادا کردہ نمازیں بھی درست قرار پائیں گی، جن کا اعادہ بھی لازم نہ ہوگا، تاہم وضو سے قبل پڑھی گئی نمازو ں کا اعادہ لازم ہوگا۔

اللباب في الجمع بين السنة والكتاب (1/ 129):

"وعنه: عن ابن عباس رضي الله عنه قال: " إذا نسي المضمضة والاستنشاق إن كان جنباً أعاد المضمضة والاستنشاق واستأنف الصلاة ". وكذلك قال ابن عرفة، وإلى هذا ذهب الثوري رحمه الله تعالى". (باب المضمضة والاستنشاق فرضان في الغسل،١ / ١٢٨، ط: دار القلم- سوريا )

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)  میں ہے:

"فروع] نسي المضمضة أو جزءاً من بدنه فصلى ثم تذكر، فلو نفلا لم يعد لعدم صحة شروعه.

(قوله: لعدم صحة شروعه) أي والنفل إنما تلزم إعادته بعد صحة الشروع فيه قصدا، وسكت عن الفرض لظهور أنه يلزمه الإتيان به مطلقاً". ( كتاب الطهارة، فروع في الطهارة، ١ / ١٥٥، ط: دار الفكر)

الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني میں ہے:

قلت أرأيت رجلا توضأ ونسى المضمضة والاستنشاق أو كان جنبا فنسى المضمضة والاستنشاق ثم صلى قال أما ما كان في الوضوء فصلاته تامة وأما ما كان في غسل الجنابة أو طهر حيض فإنه يتمضمض ويستنشق ويعيد الصلاة قلت من أين اختلفا قال هما في القياس سواء إلا أنا ندع القياس للآثر الذي جاء عن ابن عباس رضي الله عنهما قلت فإن نسى مسح الرأس في الوضوء فصلى قال عليه أن يمسح برأسه ويعيد الصلاة قلت لم أمرته في هذا بإعادة الصلاة ولم تأمره في المضمضة والاستنشاق قال لأن مسح الرأس فريضة في كتاب الله تعالى وليست المضمضة والاستنشاق مثله ( كتاب الصلاة، باب الوضوء والغسل من الجنابة، ١ / ٤١، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية - كراتشي)۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں