بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاک دامن عورت پر تہمت لگانا


سوال

میری شادی کو پانچ ماہ ہوئے ہیں ،اور میرا تین مہینے کاحمل ہے ،میری ازدواجی زندگی میرے شوہر کے ساتھ بہت اچھی گزر رہی ہے ،ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش ہیں ،میرے گھر میں میری ساس میرے شوہر کے بھائی  ،ہم کل  چار افراد ہیں ،شروع میں سب ٹھیک تھا ،مگر شادی کے دوسرے مہینے سے گھر میں مسئلے شروع ہوگئے ،میرا جیٹھ ایک انتہائی شکی مزاج آدمی ہے ،اس نے مجھ پر بلاوجہ کے بہتان لگانا شروع کردیے ،جب کہ ہمارا ایک فلیٹ ہے ،اور اندر آنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے ،مگر وہ کہتاہے کہ کمرے میں کوئی ہے ،اس کے باتھ روم میں کوئی ہر وقت رہتاہے ،جب کہ میں، میرے شوہر کمرے میں ساتھ ہوتے ہیں ،مگر پھر بھی یہی کہتاہے کہ اس کمرے میں کوئی ہے ،جب میں اپنی امی کے ہاں جانے کو بولوں  ،تو مجھ پر بہتان باندھتاہے کہ یہ  وہاں سے باہر جاتی ہے دوسرے مردوں سے ملنے ،اور ثبوت بھی کوئی نہیں ہے ،بولتاہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے الہام ہوتاہے ،میرے شوہر کو مجھے چھوڑنے کی باتیں کرتاہے ،مجھے تنگ کرنے کےلیے گھر میں کیمرے بھی لگائے ہیں ،تو اب اسلامی تعلیمات کی رو سے میری رہنمائی کریں ۔

جواب

واضح رہے کہ  کسی  پاک دامن عورت پر جھوٹے الزامات لگانا،اس کو برائی کی طرف منسوب کرنا ، اس  پر بلا وجہ شک کرنا ،اس کی جاسوسی کرنا اسلام میں سنگین جرم ہے ،گناہ کبیرہ میں شمار ہوتاہے ،ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے عمل اور رویے سے بازآئے،جس پرناجائز شک کیا ہے اور اس کااظہار کیا ہے اس سے اور اللہ رب العزت سے معافی مانگے۔

باقی  مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ  مجھے الہام ہوتاہے ،یہ بات بھی درست نہیں ،کیونکہ الہام کہتے ہیں :اللہ کی طرف سے دل میں کسی خیر کی بات کا آنا ،اور مذکورہ شخص کے دل میں   خیر کی بات نہیں ،بلکہ شر کی بات آتی ہے ،اور دوسری بات یہ ہے کہ الہام کی بنیاد پر  کسی  پر الزام نہیں لگایا جاسکتا۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ."(النور، 4)

وقال تعالیٰ:

"اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ ."(النور،64)

وقال تعالی :

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ." (سورة الحجرات ،١٢)

دستور العلماء أو جامع العلوم في اصطلاحات الفنون میں ہے:

"الإلهام : في اللغة الإعلام مطلقًا. وفي الاصطلاح إفاضة الخير في القلب فبالخير خرجت الوسوسة وبالإفاضة الفكر لأن حصول المطلوب به إنما هو بطريق الانتقال والحركة لا بطريق الفيض والإفاضة . وهي إنما يكون من جانب المفيض فيخرج بها الحدس لأنه من جانب المستفيض ."

(باب الالف مع اللام ،ج:1،ص:108،ط:دار الكتب العلمية)

شرح العقائد   النسفیہ کے حاشیہ میں ہے:

"والالهام ليس من اسباب المعرفة بصحة الشيي عند اهل الحق."

"ثم الظاهر انه اراد ان الالهام ليس سببا يحل به العلم لعامة الخلق،ويصلح للالزام علي الغير."

(ص:39،ط:دار احياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں