ایک سسر اپنی بہو جوکہ عالمہ،حافظہ ہے اس کے بارے میں لوگوں کوکہتاہے کہ میری بہوایک خبیث فاحشہ اور کذاب عورت ہے۔ ایسے نازیباالفاظ استعمال کرنےوالے شخص کےلیے شریعت میں کیاحکم ہے؟،اور ایک شریف پاک دامن عورت کی عزت ِنفس کومجروح کرنے کی وجہ سے یہ عورت مالی تعزیر کادعوی کرسکتی ہے یانہیں ؟،کیوں کہ اسلامی حکومت نہ ہونےکی وجہ سےاس شخص پر حدِقذف جاری نہیں ہوسکتی ۔
واضح رہےکہ کسی مسلمان کو گالی دینا اور اس کی عزت کو پامال کرنا گناہِ کبیرہ اور حرام ہے،اس سے متعلق قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، خاص طور پر کسی پاک دامن، حافظہ اور عالمہ خاتون کو ایسے الفاظ "فاحشہ" وغیر ہ جو "زنا کی تہمت" کے زمرے میں آسکتے ہوں استعمال کر کے گالی دینا اور اس کی عزتِ نفس كو مجروح کرنا عام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ سنگین جرم اور حرام ہے،اس کا مرتکب فاسق اوراس پر اسلامی ریاست میں "حدِ قذف" یعنی اسّی (80) کوڑے لگانے کی سزا جاری ہوسکتی ہے۔لیکن شرعی سزائیں جاری کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے، عام افراد کو اس کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
جہاں تک مالی جرمانہ کاسوال ہےتومالی جرمانہ لیناشرعاًجائزنہیں ہے،اس لئےبصورتِ صدقِ واقعہ اگرمذکورہ شخص اپنی اس بدزبانی سےبازنہیں آتاتوعدالت سےایسےشخص کوتعزیری سزادلوائی جاسکتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ} [سورة النور:4]
ترجمہ:"اور جو لوگ (زنا کی) تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں کو اور پھر چار گواہ (اپنے دعوے پر) نہ لاسکیں تو ایسے لوگوں کو اَسی درے لگاؤ اور ان کی گواہی قبول مت کرو (یہ تو دنیا میں ان کی سزا ہوئی) اور یہ لوگ (آخرت میں بھی) مستحق سزا ہیں اس وجہ سے کہ فاسق ہیں ۔"(بیان القرآن)
{ إنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ }[سورة النور: 23]
ترجمہ:" وہ لوگ بہتان لگاتے ہیں ان عورتوں کوجو پاک دامن ہیں اور ایسی باتوں کے کرنے سے بالکل بے خبر ہیں اور ایمان والیاں ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی جاتی ہے اور آخرت میں ان کو بڑا عذاب ہوگا"۔(بیان القرآن)
بخاری میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: اجتنبوا السبع الموبقات قالوا: يا رسول الله وما هن قال: الشرك بالله والسحر وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق وأكل الربا وأكل مال اليتيم والتولي يوم الزحف وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات."
(باب قول الله تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما، إنما يأكلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا4/10 ط:دار طوق النجاة)
ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: (لوگو) سات ہلاک کردینے والی باتوں سے بچو۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ! وہ سات ہلاک کرنے والی باتیں کون سی ہیں؟ فرمایا: (1)کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا، (2)جادو کرنا، (3)جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا، (4)سود کھانا، (5)یتیم کا مال کھانا، (6)جہاد کے دن دشمن کو پیٹھ دکھانا، (7)پاک دامن ایمان والی اور بے خبر عورتوں کو زنا کی تہمت لگانا"۔ (مظاہر حق جدید)
فتاوی شامی میں ہے:
"باب حد القذف هو لغة الرمي. وشرعا الرمي بالزنا، وهو من الكبائر بالإجماع فتح."
(کتاب الحدود،باب القذف،ج:4/ص:43 ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"قال في الدر:
(لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له۔۔۔۔۔ وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.
قال في الرد:
مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان."
(ردالمحتار،کتاب الحدود،باب التعزيز،ج:4/ص:62،61 ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308101037
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن