بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پچیس سو کی آبادی میں جمعہ کا قیام


سوال

25 سو کی آبادی میں جمعہ جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

جمعہ جائز ہونے کی شرائط میں سے شہر یا ایسے بڑے قصبے (بڑے گاؤں) کا ہونا بھی  شرط ہے  جس میں ضروریاتِ زندگی  کی سہولیات موجود ہوں، یعنی اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں،  اور اس گاؤں میں، تھانہ،  ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی مقرر ہو  اور اس کی مجموعی آبادی بھی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو،  اگر یہ سب شرائط پائی جائیں تو اس گاؤں میں جمعہ وعیدین ادا کرنا واجب ہوگا؛ لہذا پچیس سو  کی آبادی میں جمعہ وعیدین  قائم کرنا جائز ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم مجشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح".  (ج: 2، ص: 260، ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وتقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة". (ج: 1، ص: 537، ط: سعيد)

وفيه أيضًا:

"لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كذا في المضمرات". (ج: 2، ص: 138، ط: سعيد)

اعلاء السنن میں ہے:

"عن علي أنه قال: لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر". (ج: 8، ص1، إدارة القرآن)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں