میں نے پڑھا اور سنا ہے، اگر پیشاب کے بعد مناسب طہارت حاصل نا کی جاۓ اور پیشاب کے قطرے اگر جسم اور کپڑوں سے لگیں تو سخت عذاب ہوگا۔سوال یہ ہے کہ ایک بندہ جو بار بار واش روم جاتا ہو، جس میں شہوت بھی زیادہ ہو، اسے ہر وقت ناپاک رہنے کا وہم ہو، مذی آنے کا شک بھی ہوتا ہو، وہ کیسے قبر کے عذاب سے بچنے کی تدبیر کر سکتا ہے؟ ایک آدھ بار ہی وہ اگر پیشاب کے بعد پندرہ بیس منٹ بیٹھ کے طہارت حاصل کر سکتا ہو تو بار بار ہر دفعہ اتنی دیر کیسے بیٹھے گا؟ اور ہر بار اسے یہ بھی پتا ہو کہ زیادہ بیٹھنے سے شہوت اور مذی کا گمان بھی ہوگا۔ براۓ مہربانی قبر کے عذاب اور اس طہارت کے لیے رہنمائی کریں،کیا سہولت کے لیے فارغ وقت میں کوئی ناپاک شلوار استعمال کی جاسکتی ہے جس کو پیشاب کے بعد پاک رکھنے اور وضو میں رہنے کا ڈر نہ ہو؟ ذہنی طور پر ہر وقت موت کی سختی، قبر کے عذاب کے خوف میں مبتلا رہتا ہوں اسی وجہ سے۔
آپ نے جو حدیث پڑھی ہے وہ درست ہے کہ آپ ﷺ نے پیشاب کے معاملہ میں احتیاط کا حکم دیا ہے کیوں کہ اس میں بے احتیاطی کرنے سے چوں کہ ناپاکی جسم اور کپڑے پر لگتی ہے اور یہ عذابِ قبر کا سبب ہے۔ اس لیے پیشاب کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے کہ کہیں کپڑوں پر چھینٹیں نہ اڑیں اور پیشاب کرنےکے بعد فورًا کھڑے نہیں ہوجانا چاہیے؛ تاکہ جو قطرے نکلنے ہوں وہ نکل جائیں۔
لیکن استبراء (یعنی استنجاء کے بعد نالی میں باقی رہ جانے والے قطروں کو نکالنے) میں زیادہ غلو اور شدت سے بھی کام نہیں لینا چاہیے، اسی طرح بہت دیر تک بیٹھ کر پیشاب کے قطروں کا انتظار کرنا اور زور لگانا کہ "ودی" (گاڑھے مادے) کے قطرے آنا شروع ہوجائیں؛ کیوں کہ یہ شرعاً مذموم ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بھی مضر ہے اور ذہنی انتشار و دماغی پریشانیوں کا باعث بھی ہے، چناں چہ پیشاب سے فراغت کے بعد زیادہ وہم میں پڑنے کے بجائے کچھ دیر قطروں کے نکلنے کا انتظار کرنے کے بعد مٹی کے ڈھیلے یا ٹشو سے شرم گاہ کو سکھا کر پانی سے دھو لینا چاہیے اور پھر اس طرف مزید دھیان دینے سے پرہیز کرنا چاہیے، ورنہ اس بارے میں سوچنے سے اور زیادہ دیر تک سکھانے کی کوشش کرنے سے آدمی کو وسوسہ کی بیماری ہوجاتی ہے، اور وسوسہ کی وجہ سے قطرے آنے لگتے ہیں۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"عوارف المعارف میں لکھا ہے کہ اس کا حال تھن کا سا ہے کہ جب تک ملتے رہیں کچھ نہ کچھ نکلتا رہتا ہے اور اگر یوں ہی چھوڑ دیں تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ جب تک بتکلف جبر کر کے وسوسہ کے خلاف نہ کیجیے گا یہ مرض نہ جائے گا ۔۔۔ چند روز بے التفاتی کرنے سے وسوسے جاتے رہیں گے۔"
(ملفوظات کمالات اشرفیہ، وسوسہ طہارت کا علاج، ص:۲۶۷،ط : بشریٰ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ افراط اور تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال والا راستہ اختیار کرنا چاہیے یعنی نہ تو اتنی لاپرواہی برتنی چاہیے کہ پیشاب کرتے ہی پانی ڈال کر بغیر انتظار کیے فوراً کھڑے ہوجائیں جس کی وجہ سے بعد میں پیشاب کے قطرے نکلنے سے کپڑے، وضو اور نماز خراب ہوجائے، اور نہ ہی استبراء میں اتنا غلو کرنا چاہیے کہ شرم گاہ سوکھنے کے انتظار میں گھنٹہ بھر بیت الخلامیں لگ جائے۔
اگر آپ کو یہ قطرے آتے ہوں تو اس صورت میں آپ نماز سے کافی پہلے ہی پیشاب کر کے فارغ ہوجائیں اور اس کے بعد پیشاب کے قطروں کے خارج ہونے تک انتظار کریں، جب قطرے بند ہوجائیں اور آپ کو اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر اس کے بعد وضو کرکے نماز ادا کریں۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ نماز کے وقت کے لیے الگ کپڑا رکھیں اور دیگر اوقات کے لیے الگ کپڑا رکھیں، پھر بھی اگر نماز کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں میں قطرے نکل آئیں تو اس کو پاک کر لیں۔ الگ الگ کپڑوں کا انتظام مشکل ہو تو انڈرویئر میں ٹشو رکھ لیا کریں، اور نماز سے پہلے اسے نکال کر پانی سے صرف استنجا کرکے وضو کرکے نماز پڑھ لیں، اور نماز کے بعد پیشاب کرکے دوبارہ ٹشو رکھ لیا کریں۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 375):
"عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين، فقال: (إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير، أما أحدها فكان لا يستتر من البول - وفي رواية: المسلم لا يستتره من البول وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة - ثم أخذ جريدة رطبة، فشقها بنصفين ثم غرز في كل قبر واحدة. قالوا: يا رسول الله! لم صنعت هذا؟ فقال: لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا» ) متفق عليه.
«أما أحدهما فكان لا يستتر من البول» ) : من الاستتار ويؤيده أنه أورد هذا الحديث في شرح السنة في باب الاستتار عند قضاء الحاجة، وفي نسخة صحيحة «لا يستنتر» . قال الأشرف في الغريبين والنهاية: يستنتر بنون بين التاءين من الاستنتار وهو الاجتذاب مرة بعد أخرى. قال الليث: النتر جذبه فيه قوة قيل: هذا هو الذي يساعد عليه المعنى لا الاستتار، وعليه كلام الشيخ محيي الدين الآتي، وفي الرواية الأخرى لايستتر وهو غلط، كذا ذكره الطيبي وفيه: أن الاستنتار والاستبراء سنة عند الجمهور، والتكشف حرام عند الكل، والمقام مقام التعذيب لكونه كبيرة على ما حرر، فكيف هو الذي يساعده المعنى دون الاستتار وأنه غلط مع أنه رواية الأكثر وقد أورده البغوي في باب الاستتار، وأيضا لا يعرف أصل في الأحاديث للاجتذاب مرة بعد أخرى، بل جذبه بعنف يضر بالذكر ويورث الوسواس المتعب، بل المخرج عن حيز العقل والدين، ثم وهم ابن حجر وذكره بلفظ: لا يستبرئ من الاستبراء وجعله أصلا، ولم يذكر غيره مع أنه ليس أصل الشيخين، وإنما هو رواية ابن عساكر، وفي رواية أي لمسلم كما في نسخة الأصل «لا يستتر من البول» . قال الأبهري: في أكثر الروايات بمثناتين من فوق، الأولى مفتوحة والثانية مكسورة، وفي رواية ابن عساكر: لا يستبرئ بموحدة ساكنة من الاستبراء، وفي رواية لمسلم: لا يستنزه بنون ساكنة بعدها زاي ثم هاء. قال الشيخ: فعلى رواية الأكثر معنى الاستتار أنه لا يجعل بينه وبين بوله سترة يعني لا يتحفظ منه فيوافق رواية لا يستنزه لأنها من التنزه وهو الإبعاد اهـ. وهو جمع حسن ومآله إلى عدم التحفظ عن البول المؤدي إلى بطلان الصلاة غالبا وهو من جملة الكبائر. قال ميرك: وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «عامة عذاب القبر من البول، استنزهوا من البول» ) رواه البزار، والطبراني في الكبير، والحاكم، والدارقطني.
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «تنزهوا عن البول فإن عامة عذاب القبر من البول» ) . رواه الدارقطني. وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم («أكثر عذاب القبر من البول») . رواه أحمد وابن ماجه واللفظ له، والحاكم وقال: صحيح على شرط الشيخين. وعن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: («اتقوا البول فإنه أول ما يحاسب به العبد في القبر» ) رواه الطبراني في الكبير بإسناد لا بأس به."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107201297
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن