اگر کوئی شخص عذر کی وجہ سے ممنوعات احرام کا ارتکاب ایک دن تک کرے، مثلاً ایک دن تک لباس پہنے تو اس کے اوپر بھی دم واجب ہونے کے حوالے سے ادارہ ہذا کی ویب سائٹ پر فتوی موجود ہے۔ اور دیگر اداروں سے شائع کردہ فتاوی میں بھی یہ بات مذکور ہے۔ سوال یہ ہے کہ بعض کتب فتاوی اور مثلا فقہ کی کتاب مختصر القدوری میں بھی یہ بات درج ہے کہ عذر کی وجہ سے جنایت کرنے کی صورت میں حاجی/معتمر کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو دم دے اور اگر چاہے تو چھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو نصف صاع صدقہ کردے۔
آج کے اعتبار سے دونوں کی قیمتوں میں بہت فرق ہے۔ نصف صاع گندم کا صدقہ 100 ریال کے اندر بھی ادا ہوجاتا ہے جب کہ دم کے لیے 500 سے بھی زائد ریال لگ جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ صدقہ ادا کرنے کی جواز کی کوئی صورت موجود ہے یا نہیں؟ کبھی کوئی شخص کسی اور کے پیسوں سے سفر کررہا ہوتا ہے۔ کبھی بہت مشکل سے وہاں پہنچا ہوتا ہے اور اسے عذر بھی لاحق ہوتا ہے۔ ایسی خطیر رقم اس کے لیے نکالنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔
بلاعذرمحرم سے حالتِ احرام میں ممنوعاتِ احرام میں سے کوئی فعل سرزد ہوجائے، تواس محرم پر حرم کی حدود میں ایک جانور ذبح کرنا واجب ہوتا ہے، چاہے ادا کرنے کی استطاعت ہویانہ ہو، لیکن جب تک استطاعت نہ ہو تب تک توبہ واستغفار کرے، صدقہ (چھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو نصف صاع صدقہ کردے) دینے سے یا روزہ رکھنے سے یہ ذمہ داری ادا نہ ہوگی، بلکہ جب بھی دم ادا کرنے پر قدرت ہوگی تب دم ادا کرنا لازم ہوگا، اور اگر اپنی زندگی میں دم ادا نہ کر سکا، تو ترکہ میں مال ہونے کی صورت میں وصیت کرنا لازم ہوگا۔
لیکن اگر عذر کی وجہ سے جنایت سرزد ہوا ہے،توپھرمحرم کواختیارہے،چاہےدم/جانور ذبح کرے،یاصدقہ فطرکی مقدارگندم فقراءپرصدقہ کرے،یاتین روزےرکھ لے۔
مناسک ملا علی قاری میں ہے:
"(اذا فعل شیئا من ذلك) أی مما ذکر من الأشیاء المحظورۃ (علی وجہ الکمال) أی مما یوجب جنایة کاملة بان لبس یوما أو طیب عضوا کاملا ونحو ذلك (فان کان) أی فعله (بغیر عذر فعلیه الدم عینا) أی حتما معینا وجزما مبینا (لایجوز عنه غیرہ) أي بدلا أصلا (وإن كان) أي صدوره عنه (بعذر) أي معتبر شرعاً (فهو مخيّر بين الدم والطعام والصيام) ."
(باب فی جزاء الجنایات، فصل فی جزاء اللبس، ص551، ط:المکتبة الإمدادیة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وإن طيب أو حلق) أو لبس (بعذر) خير إن شاء (ذبح) في الحرم (أو تصدق بثلاثة أصوع طعام على ستة مساكين) أين شاء (أو صام ثلاثة أيام) ولو متفرقة.
(قوله بعذر) قيد للثلاثة وليست الثلاثة قيدا، فإن جميع محظورات الإحرام إذا كان بعذر ففيه الخيارات الثلاثة كما في المحيط قهستاني."
(کتاب الحج ،باب الجنایات ،ج:2، ص557, ط:سعید)
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:
(قوله وإن تطيب أو لبس أو حلق من عذر فهو مخير إن شاء ذبح شاة وإن شاء تصدق على ستة مساكين بثلاثة أصوع من الطعام وإن شاء صام ثلاثة أيام) لقوله تعالى {فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك} [البقرة: 196].فالصوم يجزئه في أي موضع شاء ويجزئه إن شاء تابعه وإن شاء فرقه وكذا الصدقة تجزئه عندنا حيث أحب إلا أنها تستحب على مساكين الحرم ويجوز فيها التمليك والإباحة أعني التغذية والتعشية عندهما وقال محمد لا يجزئه إلا التمليك وأما النسك وهو الذبح فلا يجزئه إلا في الحرم بالاتفاق لأن الإراقة لم تعرف قربة إلا في زمان مخصوص كالتضحية أو مكان مخصوص وهو الحرم.
[كتاب الحج، باب الجنايات في الحج،١٧٠/١، ط:المطبعة الخيرية]
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ثم الكفارات كلها واجبة على التراخي، فيكون مؤديا في أي وقت، وإنما يتضيق عليه الوجوب في آخر عمره في وقت يغلب على ظنه أنه لو لم يؤده لفات، فإن لم يؤد فيه حتى مات أثم وعليه الوصية به، ولو لم يوص لم يجب على الورثة، ولو تبرعوا عنه جاز إلا الصوم."
(کتاب الحج ،باب الجنایات ،ج:2، ص543, ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144611101439
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن