بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اونٹ کی قربانی میں دس شریک کے متعلق حدیث کا بیان


سوال

اونٹ کی قربانی میں دس لوگوں کی شرکت کے بارے میں جو حدیث موجود ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ 

جواب

جن روایات میں اونٹ میں دس افراد کی قربانی کا ذکر ہے، جمہور علماء کرام اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حکم پہلے تھا،بعد میں منسوخ ہوچکا ہے،صاحب البنایۃ علامہ بدر الدین عینی  نےاس کا جواب یہ دیا ہے کہ: قیاس کا تقاضہ یہ  ہےکہ ایک جانور پر ایک  ہی بندےکی قربانی جائز ہونی چاہیے،کیوں کہ ایک جانور کی قربانی  میں  اراقۃ الدم والا  معنی صرف ایک ہی شخص کی طرف سے پایا جاتا ہے،لیکن ہم نےصحابی کے اثر کی وجہ سے قیاس  پر عمل نہیں کیا،بلکہ اثر پر عمل کیا،یعنی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اثر کی وجہ سے گائے،بھینس اور اونٹ میں سات افرادتک کی مشترکہ  قربانی کو جائز قرار دیا،اور  جس حدیث میں ایک ہی اونٹ میں دس افراد کامشترکہ طور پر قربانی کا ذکر  آیاہے، اس سے مقصد  دس افراد کاایک ہی اونٹ میں بطور ِ قربانی کے مشترک ہونا نہیں  ،بلکہ   اس کے گوشت کو دس حصوں  میں تقسیم کر کے، غرباء میں بانٹا مراد ہے۔

نیزاونٹ کی قربانی میں سات یا سات سے کم افراد کا حصہ  لینا، متفق علیہ ہے،امام طحاوی رحمہ اللہ تعالی نے اس کے متعلق اجماع نقل کیا ہے،اور   ایک اونٹ میں دس افراد کا شامل ہونا ،صرف اہل ظواہر کا قول ہے،لہذا  اجماع پر عمل کرنا ضروری ہے، اس کے علاوہ اس حدیث کو امام  ترمذی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔

الکوکب الدری میں ہے:

" وبذلك قال إسحاق كما حكاه عنه المصنف وإليه مال بعض التابعين وغيرهم والجمهور على أن البقرة عن سبعة والبعير عن سبعة وادعى الطحاوي وابن رشد أنه إجماع كذا في البذل وكأنهما لم يلتفتا إلى الخلاف المذكور واختلفوا في الجواب عن الحديث فقال المظهر أنه منسوخ، ومال القارئ إلى أنه معارض بالرواية الصحيحة، وقال صاحب البدائع: إن الأخبار إذا اختلفت في الظاهر يجب الأخذ بالاحتياط وذلك فيما قلنا كذا في البذل ."

(أبواب الأضاحي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب في الجذع من الضان، ج: 2 ص: 394 ط: ندوة العلماء)

لمعات التنقیح  میں ہے:

"وقوله: (‌وفي ‌البعير ‌عشرة) عمل به بعض العلماء، والجمهور على أنه منسوخ (2). وقوله: (قال الترمذي: هذا حديث حسن غريب) قال في (جامعه): وفي الباب عن أبي الأسد السلمي عن أبيه عن جده وأبي أيوب، وحديث ابن عباس -رضي الله عنهما- حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث الفضل بن موسى، ثم روى الترمذي عن جابر -رضي الله عنه."

 (كتاب الصلاة، باب في الأضحية، الفصل الثاني، ج: 3 ص: 584 ط: دار النوادر)

فتح القدیر میں ہے:

"قال (ويذبح عن كل واحد منهم شاة أو يذبح بقرة أو بدنة عن سبعة) والقياس أن لا تجوز إلا عن واحد، لأن الإراقة واحدة وهي القربة، إلا أنا تركناه بالأثر وهو ما روي عن جابر رضي الله عنه أنه قال «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌البقرة ‌عن ‌سبعة والبدنة عن سبعة» . ولا نص في الشاة، فبقي على أصل القياس.

وتجوز عن ستة أو خمسة أو ثلاثة، ذكره محمد رحمه الله في الأصل، لأنه لما جاز عن السبعة فعمن دونهم أولى، ولا تجوز عن ثمانية أخذا بالقياس فيما لا نص فيه ."

(كتاب الأضحية، ج: 9 ص: 510،511 ط: دار الفکر)

البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے:

"(والقياس: أن لا تجوز إلا عن واحد؛ لأن الإراقة واحدة، وهي القربة إلا أنا تركناه بالأثر وهو ما روي «عن جابر رضي الله عنه أنه قال: نحرنا مع رسول الله عليه الصلاة والسلام البقرة عن سبعة والبدنة عن سبعة» ش: هذا الحديث أخرجه الجماعة إلا البخاري عن مالك عن أبي الزبير عن جابر وقال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة» وأخرج أبو داود في الأضحية والنسائي في الحج عن قيس عن عطاء عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البقر عن سبعة والجزور عن سبعة» .وإن قلت: أخرج الترمذي في " جامعه " والنسائي في " سننه " وأحمد في " مسنده " وابن حبان في " صحيحه " عن علباء بن أحمر عن عكرمة عن ابن عباس - رضي اللہ تعالى عنهما - قال: «كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فحضر الأضحى فاشتركنا في البقرة سبعة، وفي الجزورعشرة» . وقال الترمذي: حديث حسن غريب.

قلت: قال البيهقي: حديث أبي الزبير عن جابر - رضي الله تعالى عنه - في اشتراكهم وهم مع النبي صلى الله عليه وسلم في الجزور سبعة أصح، أخرجه مسلم، على أن اشتراكهم في العشرة محمول على أنه في القسمة لا في التضحية."

(كتاب الأضحية، من تجزيء عنه الأضحية وحكم الإشتراك في الأضحية."ج: 12 ص: 15 ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: ایک اونٹ میں دس شریک ہو سکتے ہیں؟نسائی کی حدیث کامطلب کیاہے؟کیا ایک اونٹ میں دس شریک ہو سکتے ہیں؟جب کہ ہم نے یہ سنا ہے کہ اونٹ میں صرف سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں؟

الجواب:یہ روایت بعض اصحاب ظواہر کی مستدل ہے،ائمہ اربعہ میں سے یہ کسی کا مذہب نہیں ، بلکہ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ اونٹ میں بھی بس سات ہی  شریک ہو سکتے ہیں،زیادہ نہیں،امام طحاوی رحمہ اللہ تعالی نے متعدد  روایات نقل کرکے لکھا ہے:

"وأما وجه ذلك من طريق النظر ، فإنا قد رأيناهم ‌قد ‌أجمعوا ‌أن ‌البقرة لا تجزئ في الأضحية ، عن أكثر من سبعة وهي من البدن باتفاقهم. فالنظر على ذلك أن تكون الناقة مثلها ، ولا تجزئ عن أكثر من سبعة."

(كتاب الصيد والذبائح والأضاحي، باب البدنة،عن كم تجزئ في الضحايا والهدايا، ج: 4 ص: 175 ط: عالم الکتب)

آگے اس اعترض کا جواب دیا ہے کہ اونٹ کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور گائے کی کم۔    فقط واللہ سبحانہ

(کتاب الأضحیة، باب الشرکة فی الأضحیة:(قربانی میں شرکت کا بیان)، ج: 17  ص: 396  ط: ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں