بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتیں کو گھر میں نماز ادا کرنے سے جماعت کا ثواب ملے گا؟


سوال

مردوں کو  جماعت کا ثواب مسجد میں نماز پڑھنے  سے مل جاتا ہے، کیا عورتیں  اس  سے  بالکل محروم ہیں یا کہ ان کے لیے  اس ثواب کی کوئی صورت ہے؟

جواب

عورتوں   کے لیے جماعت کے ساتھ  نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جانا یا گھر سے باہر  کسی بھی جگہ جاکر باجماعت نماز میں شرکت کرنا مکروہ ہے، خواہ  فرض نماز ہو یا  عید کی نماز ہو یا تراویح  کی جماعت ہو،  رسول اللہ ﷺ  کے زمانہ  میں  عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں ،وہ بہترین زمانہ تھا، آپﷺ بنفسِ نفیس موجود تھے،  اور وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی اَحکام نازل ہورہے تھے  اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے احکامات سیکھنا ضروری تھا، مزید یہ کہ آپ ﷺ کی  مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی  عام مساجد سے کئی گنا زیادہ  تھا ، اور  رسول اللہ ﷺ  کی امامت میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کسی دوسری جماعت میں حاصل نہیں کی جاسکتی، لیکن  اس وقت  بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور  زیورات   پہن کر نہ آئیں اورخوشبو  لگا کر  نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے فورًا بعد  مردوں  سے  پہلے  واپس چلی جائیں، اور  ان پابندیوں کے  ساتھ  اجازت کے بعد بھی  آپ  ﷺ  نے  ترغیب یہی دی   کہ عورتوں  کا گھر میں اور  پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں  نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز  پڑھنےسے افضل ہے۔

حضرت  امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھی میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے  کی نماز گھر کے احاطے  کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے  کی نماز محلے  کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے  کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔

چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے (کوٹھے) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور حاضر ہوئیں۔ (الترغیب و الترہیب:۱/۱۷۸)

آپ ﷺ کے  پردہ فرمانے کے بعد  جب حالات بدل گئے    اور صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے  اپنے زمانہ میں یہ دیکھا کہ عورتیں اب ان پابندیوں کا خیال نہیں کرتیں  تو   حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں   صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم  اجمعین  کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد آنے سے منع کر دیا گیا، اور  اس پر گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق ہوگیا،  حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو  حالت آج ہو گئی ہے وہ حالت اگر حضور  ﷺ کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ  ﷺ عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے   کہ  حضور ﷺ کے وصال کو زیادہ عرصہ  بھی نہیں گزرا  تھا۔  ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں؛ اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو آنے سے منع فرمادیتے۔

اس لیے موجودہ  پر فتن دور  میں خواتین کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز اداکریں،اور چوں کہ وہ شرعی حکم حکم کی وجہ سے مسجد کی جماعت میں شریک نہیں ہوسکتیں، اور شرعی اجازت ہوتی تو وہ مسجد کی جماعت میں شرکت کرتیں، لہذا ان کا یہی جذبہ ان کے لیے جماعت کی نماز کے ثواب کے حصول کا ذریعہ ہوگا۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت کی نماز میں شرکت کی نیت سے مسجد جائے اور وہاں جاکر معلوم ہو کہ جماعت ہوچکی ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو بھی جماعت کی نماز میں شریک ہونے والے افراد کے برابر ثواب عطا فرمائیں گے۔

سنن أبي داود - (1 / 222):

"عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من توضأ فأحسن وضوءه ثم راح فوجد الناس قد صلوا أعطاه الله جل وعز مثل أجر من صلاها وحضرها لاينقص ذلك من أجرهم شيئًا»."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212201805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں